Book Name:Ala Hazrat Ka Kirdar

پاس رکھ لی کہ جب اعلیٰ حضرت کاشانہء اقدس سے تشریف لاتے حاجی صاحب چھتری لگا کر مسجد تک لے جاتے، ابھی کچھ ہی دن گزرے تھےکہ ایک حاجت مند نے چھتری کا سوال کیا آپ نے  فوراً  وہ  چھتری حاجی صاحب سے لے کر اُس حاجت مند کو عطا فرمادی ۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت ،ص۱۱۸)

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! دیکھا آپ نے! ہمارے اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  میں ایثار وسخاوت کا کیسا جذبہ  تھا کہ  ضرورت کے  باوُجُود اپنی چیزیں  دوسروں  کو ایثار کردیا کرتے تھے  کیونکہ آپ    کو بخوبی معلوم تھا کہ اسلام ہمیں باہمی ہمدردی کا پیغام دیتا ہے، مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کادرس دیتاہے ،ایک دوسرے کے دل میں محبت پیدا کرنے کیلئے جائز طریقے سے  تحائف دینے  کی تعلیم دیتاہے،اسی لئے آپ  نےخیرخواہی کرتے ہوئے خوشی خوشی اپنی ذات پر دوسرے  مسلمان بھائی کو ترجیح دی ۔ حدیثِ پاک میں ہے ’’جوشخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو، پھر اُس خواہش کو روک کر اپنے اُوپر(دوسرے کو)  ترجیح دے، تو اللہپاک  اُسےبخش دیتاہے۔‘‘  (جمع الجوامع  للسیوطی  ،حرف  الہمزہ،۳/۳۸۴حدیث :۹۵۷۲ )

امیرِاہلسنّت،بانیِ دعوتِ اسلامیدَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہاپنی مایہ نازتالیف”فیضانِ سُنَّت“میں اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دینے کے بارے میں ایک بڑی ہی خُوبصورت حکایت نقل فرماتے ہیں۔چنانچہ،

حَضْرتِ سیِّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’میں نے شیخ احمدحمّادی سَرخَسی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  سے ان کی تَوْبہ کا سبب پوچھا ، تو کہنےلگے:’’ایک بار میں اپنے اُونٹوں کو لے کر ’’سَرخَس‘‘ سےروانہ ہوا۔ دورانِ سفر جنگل میں ایک بُھوکے شیر نےمیراایک اُونٹ زَخْمی کر کےگِرا دیااور پھر بُلندٹِیلے پر چڑھ کر ڈَکارنے لگا، اُس کی آواز سُنتے ہی بَہُت سارے دَرِندے اِکٹّھے ہو گئے۔ شَیر نیچے اُترا اور اُس نے اُسی زَخمی اُونٹ کوچِیرا پھاڑا مگر خود کچھ نہ کھایا،بلکہ دوبارہ ٹِیلے پر جا بیٹھا، جَمْع شُدہ دَرِندے