Book Name:Ilm Deen K Fazail

ضرورت پڑےگی!اس پر میں نے انصاری لڑکے کو چھوڑ دیااور خود علم حاصل کرنے لگ گیا۔بار ہا ایسا ہوا کہ معلوم ہوتا فُلاں صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس فُلاں حدیث ہے میں اس کے گھر دوڑا جاتا۔اگر وہ  آرام کر رہے ہوتے تو میں اپنی چادر کا تکیہ بنا کر ان کے دروازے پر پڑا رہتا اور گرم ہوا میرے چہرے کوجھلساتی رہتی ۔جب وہ صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ باہر آتے اور مجھے اس حال میں پاتے تو متأثر ہوکر کہتے،رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےبھتیجے آپ کیا چاہتے ہیں ؟میں کہتا ، سنا ہے آپ رسو ل اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی فُلاں حدیث روایت کرتے ہیں،اسی کی طلب میں حاضر ہوا ہوں ۔وہ کہتے آپ نے کسی کو بھیج دیا ہوتا اور میں خود چلا آتا۔میں جواب دیتا: نہیں،اس کام کے لئے خود مجھے ہی آنا چاہئے تھا۔اس کےبعد یہ ہوا کہ جب اصحاب رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم گزر گئے تو و ہی انصاری دیکھتاکہ لوگوں کو میری کیسی ضرورت ہے اور حسرت سے کہتا :ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تم مجھ سے زیادہ عقل مند تھے۔(سنن دارمي،۱/۱۵۰،حدیث:۵۷۰)

دو عالَم نہ کیوں ہو نثارِ صحابہ                               کہ ہے عرش منزل وقارِ صحابہ

امیں ہیں یہ قرآن و دِینِ خدا کے       مدارِ ہُدیٰ اعتبارِ صحابہ

صحابہ ہیں تاجِ رِسالت کے لشکر        رسولِ خدا تاجدارِ صحابہ

  محدثِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا شوقِ علم

     محدِّث ِ اعظم پاکستان حضرتِ مولانا سردار احمد قادری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کو مطالعے کا اتنا شوق تھا کہ مسجد میں نمازِ باجماعت میں کچھ تاخیر ہوتی تو کسی کتاب کا مُطالعہ کرنا شروع کر دیتے۔جب آپ منظر الاسلام بریلی شریف میں زیر ِ تعلیم تھے تو ساتھی طلبہ کے سوجانے کے بعد بھی محلہ سوداگران میں لگی لالٹین  (Laltern)کی روشنی میں اپناسبق یاد کیا کرتے تھے۔آپ کے اساتذہ کو اس بات کا علم