Book Name:Maut kay Qasid

سب کے سب واپس پلٹ جائیں گے۔ میرا دل بہلانے کے لیے کوئی بھی وہاں نہ ٹھہرے گا، ہائے! ہائے! پھر قبْر میں میرا جسم گلنا  سَڑنا شروع ہوجائےگا۔ اُسے کیڑے کھانا شروع کردیں گے،وہ کیڑے پتا نہیں میری سیدھی آنکھ پہلےکھائیں گے یا کہ اُلٹی آنکھ، میری زبان پہلے کھائیں گے یا میرے ہونٹ۔ ہائے! ہائے!میرے بدن پرکس قدر آزادی کے ساتھ کیڑے رِینگ رہے ہوں گے،ناک، کان اور آنکھوں وغیرہ میں گُھس رہے ہوں گے۔یُوں اپنی موت اور قبْر کے حالات کا تَصوُّر باندھیئے پھر مُنکر نکیر کی آمد، ان کے سوالات اور عذابِ قبْر کا خیال دل میں لائیے اور اپنے آپ کو ان پیش آنے والے مُعاملات سے ڈرایئے۔اس طرح فکرِمدینہ(یعنی اعمال کے محاسبے) کے ذریعے موت کا تَصوُّرکرنے سے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ دل میں موت کا احساس پیدا ہوگا،نیکیاں کرنے اور گُناہوں سے بچنے کا ذِہْن بنے گا۔(بیانات عطاریہ ،حصہ۱، ص۳۰۹)

یاد رکھ!ہر آن آخرموت ہے

مُلکِ فانی  میں  فنا  ہر شئے کو ہے

بارہا     علمیؔ    تجھے  سمجھا           چکے

 

بن تو مت انجان آخر موت ہے

   سُن لگاکر کان،  آخر موت  ہے

     مان یا   مت مان آخر موت ہے

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! اگر ہم چاہتے ہیں کہ موت کی یاد ہر وَقْت ہمارے دلوں میں مَوجُود رہے اور ہم وَقتاً فوقتاً موت کی تیاری کرتے رہیں اور اس کے علاوہ دیگر گُناہوں سے بھی بچتے رہیں تو اس کیلئے  ہمیں ایک ایسے ماحول کی ضرورت ہے کہ جس ماحول میں ہمیں گُناہوں کی سَزاؤں اور نیکیوں کی جزاؤں کے بارے میں آگاہ کیا جاتا رہے ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّ  وَجَلَّ فی زمانہ دعوتِ اسلامی کے مشکبار  مَدَنی ماحول  میں گُناہوں سے نفرت اور نیکیوں سے مَحَبَّت کی ترغیب دلائی جاتی ہے،لہٰذا آپ بھی دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو جائیےاورموت کے بارےمیں مَزید مَعلُومات حاصِل کرنے کیلئے