Book Name:Faizan e Ghareeb Nawaz

ہوگیا۔وِرَاثَت میں ایک باغ اور ایک پَنْ چَکِّی (یعنی پانی سے چلنے والی چکّی )ملی ،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے  اسی کو  ذَرِیعَۂ مَعَاش بنالیا اورخود ہی باغ کی نِگَـہْـبَانی کرتے اوردرختوں کی آبیاری فرماتے۔([1])

وَلیُّ اللہ کے جُوٹھے کی برکت

ایک روزحضرتِ سَیِّدُنا خواجہ مُعِیْنُ الدّین چِشْتِی اَجْمیریعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  باغ میں پَودوں کو پانی دے رہے تھے کہ ایک مَـجْذُوب بُزرگ حضرتِ سَیِّدُنا ابراہیم قندوزی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ باغ میں تشریف لائے۔ جُونہی حضرت سَیِّدُناخواجہ مُعِیْنُ الدّین عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْمُبِین کی نظر ،اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے اِس مقبول بندے پرپڑی، فوراً دوڑے ،سلام کرکے دَسْتْ بوسی کی اور نہایت اَدَب  واِحترام کے ساتھ درخت کے سائے میں بٹھایا۔ پھر ان کی خدمت میں اِنتہائی عاجِزی کے ساتھ تازہ انگوروں کا ایک خَوشہ پیش کیا اور دوزانو بیٹھ گئے۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے ولی کو اس نوجوان باغبان کا انداز بھا گیا، خوش ہو کرکَھلی (تل یا سرسوں کا  پھوک) کاایک  ٹکڑا چَبَا کرآپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مُنہ میں ڈال دیا۔ کَھلی کا ٹکڑا جُونہی  حَلْق سے نیچے اُترا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دل کی کیفیت یکدم بدل گئی اور دل دنیا  کی مَحَبَّت سے  اُچاٹ ہوگیا۔پھر  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے باغ، پَنْ چَکِّی اورسارا سازو سامان بیچ کر اس کی قیمت فُقَرا ومَساکین میں تقسیم فرمادی اورحُصولِ علمِ دِین  کی خاطِر راہِ خداکے مُسافِر بن گئے۔([2])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                               صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کردہ واقعے سے ہمیں یہ درس ملتاہے کہ جب ہم  کسی مجلس میں بیٹھے ہوں اورہمارے بُزرگ،اساتذہ ،ماں باپ،کوئی عالمِ دین یا پیرومُرشِد آجائیں توہمیں ان کی تَعظِیْم کے لئے  کھڑا ہوجانا چاہیے، انہیں عزّت واِحترام  کے ساتھ بٹھانا چاہیے۔یادرکھئے !اَدَب ایسی شے ہے کہ


 



[1] مرآۃ الاسرار، ص۵۹۳،بتغیر

[2] مرآۃ الاسرار،ص۵۹۳ملخصاً