وہ سمجھتے ہیں بولیاں سب کی

ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک نے بے شمُار کمالات سے نوازا ہے۔ان کمالات میں سے ایک  دیگر مخلوقات  اور خطوں کی زَبانوں کا جاننا بھی ہے۔ حضورسب جانتے ہیں ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ کریم نے تمام زَبانوں کا علم عطا فرمایا تھا جیسا کہ علّامہ احمد بن محمد صاوی مالِکی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: اَنَّ اللّٰهَ عَلَّمَهٗ جَمِيْعَ اللُّغَاتِ، فَكَانَ يُخَاطِبُ كُلَّ قَوْمٍ بِلُغَتِهِم یعنی اللہپاک نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تمام زبانیں  سکھا دی تھیں  اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر قوم سے اُسی کی زَبان میں کلام فرمایا کرتے تھے۔ (حاشیۃ الصاوی،پ13،ابراہیم،تحت الایۃ:4،ج 3،ص1014) شارحِ بُخاری امام احمد بن محمد قَسْطَلَانی علیہ رحمۃ اللہ الوَالی  نے بھی اس بات کو کچھ لفظی اختلاف کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ (مواہبِ لدنیہ،ج2،ص53) جب کبھی کوئی ایسا اجنبی آتا جس کی زبان کوئی نہ سمجھ سکتا  تو ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ صرف اس کی بات سمجھتے بلکہ اسی زبان میں جواب بھی ارشاد فرماتے۔ رسولِ عربی کا عجمی زبان میں جوابایک مرتبہ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس مسجدِ حرام میں ایک عجمی وفد  پہنچا۔ ان میں سے کوئی بھی نبیّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نہیں جانتا تھا۔ ان میں سے ایک شخص نے اپنی زَبان میں کہا: من ابون اسیران  یعنی تم میں اللہ کے رسول کون ہیں ؟ حاضرین میں سے کوئی بھی ان کی بات نہ سمجھ سکا۔نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”اَشْکَدّ اور“یعنی یہاں میرے پاس آگے آجاؤ،وہ قریب آگئے اور گفتگو کرنے لگے، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  انہیں ان کی زَبان میں جواب دیتے رہے، آخِرکار  انہوں نے اسلام قبول کیا، آپ سے بیعت کی اور پھر اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے۔(نسیم الریاض،ج2،ص134) مُفَسِّرِشہیرحضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن فرماتے ہیں: حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم قدرتی طور پر تمام زَبانیں جانتے ہیں جب حضور جانوروں، پتّھروں، کنکروں کی بولیاں سمجھتے ہیں تو انسانوں کی بولی کیوں نہ سمجھیں گے۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص335)

وہ سمجھتے ہیں بولیاں سب کی،وہی بھرتے ہیں جھولیاں سب کی

آؤ بازارِ مصطفےٰ کو چلیں،کھوٹے سکے وہیں پہ چلتے ہیں

 درخت کیوں چل کر آیا؟ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ صِرْف عَرَب و عَجم کی بولیاں جانتے تھے بلکہ بےزبانوں کی  زبان بھی سمجھتے تھے جیسا کہ حضرت سیّدُنا یَعْلیٰ بن مُرَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے: نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک بار سفر میں کسی  جگہ سو رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ ایک درخت زمین چیرتا ہوا آیا اور  آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر سایہ کرلیا، پھرواپس اپنی جگہ چلا گیا۔ جب نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیدار ہوئے اور   میں نے  اس بات  کا ذِکْر کیا تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد  فرمایا: اس درخت نے اپنے رب سے اِجازت طَلَب کی تھی کہ وہرسولُ اللہ (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کو (یعنی مجھے) سلام کرے۔اللہکریم نے اسے اجازت  عطا فرمائی۔(مشکاۃ المصابیح،ج2 ،ص393، حدیث:5922مختصراً)

مشہور مُفَسِّرحکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن اس واقعے کے تحت فرماتے ہیں: درخت کی یہ حاضِری صرف سایہ کرنے کے لیے نہ تھی بلکہ مجھے (نبی پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو) سلام کرنے کے لئے تھی اس سے معلوم ہوا کہ حُضُورِ انور(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کو جانور درخت بھی سلام کرتے ہیں دوسرے یہ کہ حُضُورِ انور سوتے میں بھی سلام کرنے والوں کے سلام سُنتے انہیں جواب دیتے ہیں آج بھی بعدِ وفات حُضُور کو دنیا سلام کرتی ہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ خود اپنی مخلوق کو حضور کی بارگاہ میں سلام کرنے بھیجتا ہے۔ دیکھو درخت اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر سلام کرنے آیا تھا۔ (مراٰۃ المناجیح،ج8،ص240)

اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم، جانور بھی کریں جن کی تعظیم

سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم، پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں

(حدائق بخشش،ص112)

شُترِ ناشاد کی داد رسی حضرت سیّدُنا  یَعْلیٰ بن مُرَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: ہم  نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ کہیں جا رہے تھے کہ ہمارا گُزر ایک  ایسے اونٹ کے پاس سے ہوا جس پر پانی دیا جا رہا تھا۔ (یعنی اس وقت کھیت والے اس پر کھیت کو پانی دے رہے تھے۔) اُونٹ نے جب نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو دیکھا تو وہ بلبلانے لگا اور اپنی گردن آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے جھکادی۔ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایا: اس اُونٹ کا مالِک کہاں ہے؟  مالِک حاضِر ہوا تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہ اُونٹ بیچتے ہو؟ اس نے عرض کی: نہیں، بلکہ یہ آپ کے لئے تحفہ ہے۔ مزید عرض کی کہ یہ ایسے گھرانے کا ہے کہ جن کے پاس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اس اونٹ نے شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چاراکم ڈالتے ہو۔ اس کے ساتھ اچّھا سُلُوک کرو۔ (مشکاۃ المصابیح،ج 2،ص393، حدیث:5922 مختصراً)  حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن اس حدیث کے تحت  فرماتے ہیں:اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ حضورِ انور جانوروں کی بولی بھی سمجھتے ہیں۔ حضرتِ سُلیمان صِرْف چڑیوں چیونٹیوں(یعنی مخصوص جانوروں) کی بولی سمجھتے تھے، حُضُور شَجر و حَجر خشک و تَر ساری مخلوق کی بولی جانتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ حضور حاجَت روا مشکل کشا  ہیں۔ یہ وہ مسئلہ ہے جسے  جانور بھی مانتے ہیں جو انسان مسلمان ہو کر حضور کو حاجت روا، مشکل کشا نہ مانے وہ جانوروں سے بدتر ہے۔ تیسرے یہ کہ حضور کی کچہری میں جانور بھی فریادی ہوتے تھے۔    ؎

ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد، ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد

اسی در پر شترانِ ناشاد، گلۂ رنج و عَنا کرتے ہیں

                                                                              (حدائق بخشش،ص113)

لہذا اپنا ہر دکھ درد حضور سے کہو فریاد کرو۔(مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص239) یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد حضرتِ سیّدُنا عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: ہم نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ آپ قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے دو بچے تھے، ہم نے انہیں پکڑلیا، چڑیا آئی اور پھڑپھڑانے لگی۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے تودریافت فرمایا: کس نے اس کے بچّوں کے معاملے میں اسے تکلیف پہنچائی ہے؟ اس کے بچّے اسے لوٹادو۔ (ابوداؤد،ج 3،ص75، حدیث:2675) ہِرنی کی فریاد حضرتِ سَیِّدُنا زید بن اَرْقم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نَبِیّ رَحْمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک اَعْرابی کے خیمے کے پاس سے گزراتو وہاں ایک ہرنی بندھی ہوئی تھی۔ بے کسوں کے فریادرَس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نَظَر پڑتے ہی ہرنی نے عرض کی: یَارَسُوْلَ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم!یہ خیمے والا اَعرابی (دیہاتی) مجھے جنگل سے پکڑ کر لایا ہے، جبکہ میرے دو بچّے جنگل میں ہیں، میرے تھنوں میں دودھ گاڑھا ہورہا ہے یہ نہ تو مجھے ذَبَحْ کرتا ہے کہ میں اِس تکلیف سے راحت پاجاؤں اور نہ مجھے چھوڑتا ہے کہ اپنے بچّوں کو دودھ پلا آؤں۔ ہرنی کی فریاد سن کر مظلوموں کے فریادرَس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر میں تجھے چھوڑدوں تو کیا تُو اپنے بچّوں کو دودھ پلا کر واپس آجائے گی؟ عرض کی: جی ہاں! یَا رَسُوْلَ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ضَرور واپس آؤں گی، اگر میں نہ آؤں تو اللہ پاک مجھے ناجائز ٹیکس وصول کرنے والے کا سا عذاب دے۔ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اُسے چھوڑا تو وہ بڑی تیزی وبے قراری سے جنگل کی طرف چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد واپس آگئی۔ آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُسے خیمے کے ساتھ باند ھ دیا۔ اتنے میں وہ اَعرابی بھی پانی کا مشکیزہ اٹھائے بارگاہ ِرسالت میں حاضِر ہو گیا ۔آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:یہ ہرنی ہمیں بیچ دو! عرض کی: یَارَسُوْلَ اللہ! یہ بطورِ ہدیہ پیشِ خدمت ہے۔ چنانچہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُسے آزاد فرمادیا۔ حضرتِ سَیِّدُنا زید بن اَرْقم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: اللہ پاک کی قسم! میں نے اس ہرنی کو دیکھا کہ وہ جنگل میں کلمہ پڑھتی ہوئی جارہی تھی ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی،ج 6،ص35)

شان رحمت جوش پر آئی چھڑایا قید سے

بے کلی کے ساتھ جب ہرنی پُکاری یارسول

(قبالہءبخشش،ص90)

مُفَسِّرِ شہیرحکیمُ الامّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن فرماتے ہیں: ہمارے حضور زندَگی شریف میں تمام زَبانیں جانتے ہیں حتّٰی کہ لکڑی و پتّھر کی زَبانیں، جانور حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فریادیں کرتے تھے اور اب بھی ہر زبان سے واقف ہیں، حضور کے روضہ پر ہر فریادی اپنی زَبان میں عرض و معروض کرتا ہے وہاں ترجمہ کی ضَرورت نہیں پڑتی۔ (مراٰۃ المناجیح،ج1،ص135)

ایمان کا اعلان  کرنے والی گوہ حضرتِ سیّدُنا  عبدُاﷲ بن عُمَر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ قبیلۂ بنی سُلَیْم کا ایک اعرابی نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضِر ہوا اور کہنے لگا: میں اس وَقْت تک آپ پر ایمان نہیں لاؤں گا جب تک میری یہ گوہ آپ پر ایمان نہ لائے۔ یہ کہہ کر اس نے گوہ کو آپ کے سامنے ڈال دیا۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے گوہ کو پکارا تو اس نے ”لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ“ اتنی بُلند آواز سے کہا کہ تمام حاضِرین نے سُن لیا۔ پھر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پو چھا: تیرا معبود کون ہے؟ گوہ نے جواب دیا: میرا معبود وہ ہے کہ جس کا عرش آسمان میں ہے اور اسی کی بادشاہی زمین میں ہے، اس کی رَحْمت جنّت میں ہے اور اس کا عذاب جہنّم میں ہے۔ پھر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوچھا: اے گوہ! یہ بتا کہ میں کون ہوں؟ گوہ نے بُلند آواز سے کہا: اَنْتَ رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، آپ رب العالمین کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں قَدْ أَفْلَحَ مَنْ صَدَّقَکَ، جس نے آپ کی تصدیق کی وہ کامیاب ہو گیا وَقَدْ خَابَ مَنْ کَذَّبَکَ اور جس نے آپ کو جُھٹلایا وہ نامراد ہو گیا۔ یہ مَنْظر دیکھ کر اعرابی(دیہاتی) اس قدر متأثر ہو ا کہ فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اﷲ! (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) میں جس وقت آپ کے پاس آیا تھا تو میری نظر میں روئے زمین پر آپ سے زیادہ ناپسند کوئی آدمی نہیں تھا لیکن اس وقت میرا یہ حال ہے کہ آپ میرے نزدیک میری جان اور میرے والدین سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: خُدا کے لئے حمد ہے جس نے تجھ کو ایسے دین کی ہدایت دی جو ہمیشہ غالب رہے گا اور کبھی مغلوب نہیں ہو گا۔ پھر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کو سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص کی تعلیم دی۔ اعرابی قراٰن کی ان دو سورتوں کو سن کر کہنے لگا کہ میں نے بڑے بڑے فصیح و بلیغ، طویل و مختصر ہر قسم کے کلاموں کو سنا ہے مگر خُدا کی قسم! میں نے آج تک اس سے بڑھ کر اور اس سے بہتر کلام کبھی نہیں سنا۔( معجم اوسط،ج4،ص283،حدیث:5996 مختصراً)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…رکن مجلس المدینۃالعلمیہ باب المدینہ کراچی                   


Share

Articles

Comments


Security Code