اپنے کرایہ دار سے قرض لینے کی احتیاط اور طریقہ

احکامِ تجارت

*مفتی ابو محمد علی اصغر  عطاری  مَدَنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر2022ء

اپنے کرایہ دار سے قرض لینے کی احتیاط اور طریقہ

سوال :  کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے ایک دکان کرایہ پر دی ہوئی ہے تو کیا میں اس دکان دار سے ادھار لے سکتا ہوں ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب :  کرایہ دار سے ادھار لینا تو فی نفسہٖ جائز ہے البتہ یہ احتیاط ضروری ہے کہ ادھار لے کر اس ادھار کی وجہ سے دکان کا کرایہ مارکیٹ کے مقابلے میں کم کردینا جائز نہیں۔

یہ نہ ہو کہ وہ کہے کہ میں ادھار تو دے دیتا ہوں لیکن اس کے بدلے میں کرایہ کم کرنا پڑے گا یہ جائز نہیں کیونکہ قرض پر نفع کو حدیثِ پاک میں سود قرار دیا گیا ہے۔

چنانچہ حدیثِ مبارک میں ہے :  ” کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَھُوَ رِبًا “  ترجمہ :  قرض کے ذریعہ سے جو منفعت حاصل کی جائے وہ سود ہے۔ ( کنز العمال، جز6، 3 / 99،حدیث : 15512 )

 لہٰذا اس اُدھار کی وجہ سے اسے کوئی نفع نہیں دے سکتے، بغیر کسی نفع کے اپنے کرایہ دار سے قرض لے سکتے ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ایتھیکل ہیکر کا کسی کمپنی کا سسٹم ہیک کرکے پیسے کمانا

سوال :  کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں ایک سافٹ ویئر ڈیولپر ہوں اور ایتھیکل ہیکر ہوں۔ ہمارا کام یہ ہوتا ہے کہ کمپنیز ہم سے سافٹ ویئر وغیرہ بنواتی ہیں اور وہ خود ہمیں کہتی ہیں کہ ہمارا سافٹ ویئر ہیک کریں تاکہ انہیں اپنے اس سافٹ ویئر کی کمزوریاں معلوم ہوں اور اس کو فول پروف کروالیں۔ بعض کمپنیاں ایسی ہیں جو ہمیں دوسری کمپنیوں کے سافٹ ویئرز کو بھی ہیک کرنے کا کہتی ہیں کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب :  نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :   ” لا ضرر و لا ضرار فی الاسلام “  ترجمہ :  اسلام ضرر اور نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا۔  ( معجم الاوسط، 6 / 91 )

آپ کا کام اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ ایک کمپنی آپ کو اپنے سافٹ ویئر وغیرہ کی کمزوریاں جاننے اور ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے ہائیر کرتی ہے اور آپ اسی کمپنی کی رینج میں رہتے ہوئے اپنا کام کرتے ہیں یعنی اسی کمپنی کے سافٹ ویئر کو ہیک کرکے اس کے نقائص کا جائزہ لیتے ہیں، یہ تو جائز ہے لیکن اگر کسی اور کمپنی کے سافٹ ویئرز ہیک کرنے کی بات آئے تو ایسا کرنا ہرگز جائز نہیں کہ آپ کسی اور کمپنی کی ویب سائٹ یا سافٹ ویئرز ہیک کرکے اسے نقصان پہنچائیں یا اس کی ذاتی پرائیویسی میں دخل انداز ی کریں جب کوئی ہیکر کسی کمپنی کی ویب سائٹ یا سافٹ وئیر کو ہیک کرتا ہے تو زیادہ تر مقصد نقصان پہنچانا ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے کمپنی کی سروسز رک جائیں گی، اس کی بعض چیزیں معطل ہوجائیں گی، اس کی پرائیویسی ڈیمیج ہوجائے گی، اس کے کاغذات لیک یا چوری ہوجائیں گے کیونکہ مد مقابل  ( Competitor )  کی پرائیویسی بھی بہت بڑا ہتھیار ہوتی ہے کہ وہ کیا سوچ رہا ہے کیا بنانے جارہا ہے وغیرہ۔ لہٰذا اس کا سسٹم ہیک کرکے اس طرح کی معلومات چرانا یا اس کی سروسز معطل کردینا یا پرائیویسی میں دخل اندازی کرنا ہرگز جائز نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

قرض میں کون سی کرنسی واپس کی جائے گی ؟

سوال :  کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص عرب امارات میں رہتا ہے اس نے اپنے دوست کو قرض دیا جو پاکستان میں رہتا ہے اور دیتے وقت کچھ طے نہیں ہوا کہ واپسی درہم لے گا یا پاکستانی روپے اور اب قرض دئیے ہوئے بھی چار پانچ سال گزر چکے ہیں اس دوران پاکستانی کرنسی کی قیمت کافی گر چکی ہے اور درہم مہنگا ہو گیا ہے تو اب اگر وہ قرض پاکستانی روپے میں واپس لیتا ہےتو اس کو نقصان ہوتا ہے لہٰذا اس کا یہ مطالبہ کرنا کہ میں نے درہم میں قرض دیا تھا لہٰذا درہم ہی واپس لوں گا، کیسا ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب :  عموماً ایسا تو نہیں ہوتا کہ قرض لینے والا دبئی جائے اور وہاں سے درہم بطورِ قرض لے کر واپس آئے بلکہ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ قرض دار کو پاکستانی روپے ہی ملتے ہیں لہٰذا جو کرنسی دی تھی اسی کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے، اگر درہم ہی دئیے تھے تو درہم کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتا ہے لیکن اگر پاکستانی روپے دئیے تھے تو اب پاکستانی روپے ہی واپس لے گا یہ نہیں سوچے گا کہ میں نے تو درہم بھیجے تھے اور بینک سے پیسے ہی نکلتے ہیں اور جس وقت میں نے قرض دیا تھا اس وقت یہ مالیت تھی اور آج یہ مالیت ہے اس حساب کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ جو کرنسی دی تھی وہی کرنسی اتنی ہی واپس لی جائے گی جتنی دی تھی اگرچہ دینے والے نے درہم کی صورت میں قرض بھیجا ہو لیکن چونکہ قرض لینے والے کو پاکستانی کرنسی ملی اور قرض کا شرعی اصول یہ ہے کہ قرض لینے والے نے جو چیز جس حالت میں پائی ہو، اس پر اسی جیسی اور اتنی ہی چیز واپس کرنا لازم ہوتا ہے۔ لہٰذا قرض لینے والا صرف اتنی پاکستانی کرنسی دینے کا پابند ہے ، جتنی اسے قرض کے طور پر ملی تھی۔

صدرُالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں :   ” قرض کا حکم یہ ہے کہ جو چیز لی گئی ہے اُس کی مثل ادا کی جائے۔۔۔ ادائے قرض میں چیز کے سستے مہنگے ہونے کا اعتبار نہیں مثلاً دس سیر گیہوں قرض لیے تھے اُن کی قیمت ایک روپیہ تھی اور ادا کرنے کے دن ایک روپیہ سے کم یا زیادہ ہے اس کا بالکل لحاظ نہیں کیا جائے گا وہی دس سیر گیہوں دینے ہونگے۔ “   ( بہارِ شریعت،2 /  756 و 757 )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 اُجرت طے کئے بغیر نکاح پڑھانا کیسا ؟

سوال :  کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اُجرت طے کئے بغیر نکاح پڑھانا کیسا ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب :  جس کام کے کرنے پر اُجرت کا لین دین معروف ہو یا کام کرنے اور کروانے والے کے ذہن میں یہ بات موجود ہو کہ اُجرت کا لین دین ہوگا اس میں اجرت طے کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ اجارہ ہے اور اجارے میں اجرت طے نہ کرنا نزاع کا باعث بن سکتا ہے جس سے شریعتِ مطہرہ نے منع فرمایا ہے۔

ہمارے یہاں جو نکاح پڑھائے جاتے ہیں ان میں عموماً یہی صورت ہوتی ہے کہ نکاح پڑھانےوالے کے ذہن میں بھی یہ بات موجود ہوتی ہے کہ کچھ نہ کچھ ملے گا اور پڑھوانے والا بھی جانتا ہے کہ کچھ نہ کچھ دینا ہوگا تو یہ اجارہ ہی ہے لہٰذا اگر عرف میں اجرت متعین نہ ہو تو پھر فریقین کا پہلے سے طے کرنا ضروری ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  محققِ اہلِ سنّت، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورُالعرفان، کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code