مولیٰ علی المرتضی کا ذریعۂ معاش/ ہاتھوں میں چھالے پڑگئے

خلیفۂ چَہارُم حضرتِ سیِّدُنا مولیٰ علی مشکل کُشا، شیرِ خُدا کرّم اللہ وجہہ الکریم اپنے گزر اوقات کے لئے اُجرت پر کام کیا کرتے تھے۔ (حدیقہ ندیہ،ج1، ص222)

ہاتھوں میں چھالے پڑگئے حضرت سیِّدُنا مجاہدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا بیان ہے کہ ایک دن حضرت سیِّدُنا علیُّ المُرتضیٰ، شیرِ خدا کرّم اللہ وجہَہُ الکریم عِمامہ باندھے ہمارے پاس تشریف لائے اور بتانے لگے کہ ایک مرتبہ مدینۂ مُنوَّرہ میں مجھے سخت بھوک محسوس ہونے لگی تو میں مزدوری کی تلاش میں مدینہ کے گرد و نواح کی طرف نکل گیا، وہاں میں نے ایک عورت دیکھی جس نے مِٹّی کا ایک ڈھیر جمع کیا ہوا تھا جسے وہ پانی سے تَر کرنا چاہتی تھی، میں نے ہر ڈول کے بدلے ایک کھجور مزدوری طے کی اور سولہ ڈول کھینچے یہاں تک کہ میرے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے، میں نے ہاتھ دھوئے پھر اس عورت کے پاس آیا اور کہا کہ میرے لئے اتنا ہی کافی ہے، تو اس عورت نے مجھے 16کھجوریں گن کردیں، میں انہیں لے کر حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ بتایا پھر ہم نے مل کر وہ کھجوریں کھائیں۔ آپ صلَّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے لئے کلماتِ خیر کہے اور دعا فرمائی۔ (حلیۃ الاولیاء،ج1، ص112)

کھجوروں کے عوض باغ کی سیرابی شیرِ خدا حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں ایک باغ میں گیا، باغ کے مالک نے کہا کہ ہر ڈول پر ایک کھجور کے بدلے میرے اس باغ کو سیراب کردو۔ میں نے کچھ ڈول نکالے اور اس کے بدلے میں کھجوریں وصول کیں جن سے میری ہتھیلی بھر گئی پھر میں نے کچھ پانی پیا اور کھجوریں لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضرہو گیا اور سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ مل کر کھجوریں تناول کیں۔(الزہد للامام احمد،ص157، رقم: 701)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ان واقعات میں ان لوگوں کے لئے درس ہے جو اچّھے خاصے تندرست ہوکر بھی کوئی کام کاج نہیں کرتے اور مزدوری تو مزدوری، چھوٹی موٹی تجارت کو بھی باعثِ شرم خیال کرتے ہیں حالانکہ ہمارے بزرگانِ دین کسبِ حلال کے لئے چھوٹے موٹے کام کو بھی بُرا نہیں سمجھتے تھے۔ ایسے لوگ بھی اسی معاشرے میں پائے جاتے ہیں کہ اگر چاہیں تو کماکر خود بھی کھاسکتے ہیں اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاسکتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے وجود کو بےکار قرار دے رکھا ہے اور بقدرِ حاجت کمانے پر قادر ہونے کے باوجود مفت کی روٹیاں توڑنے اور اس کے لئے بھیک مانگنے کے عادی ہوتے ہیں۔ یاد رکھئے! بطورِ پیشہ بھیک مانگنا حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے، جو بِلااجازتِ شرعی سوال کرتا ہے وہ جہنّم کی آگ اپنے لئے طلب کرتا ہے اور اِس طرح جتنی رقم زِیادہ حاصِل کرے گا اُتنا ہی جہنّم کی آگ کا زیادہ حقدار ہوگا۔

اللہ پاک ہمیں لوگوں سے مذموم سوال کرنے سے بچائے اور کسبِ حلال کے لئے کوششیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭۔۔۔ماہنامہ فیضانِ مدینہ ،باب المدینہ کراچی


Share