Shan e Aal e Siddiq

Book Name:Shan e Aal e Siddiq

بات کو ذرا سمجھیےگا؛ اِس دُنیا میں کامِل تَرِین انسان انبیائے کرام  علیہم السَّلام  ہیں، نُور نبوت ہی کا ہے۔ رَبِّ کریم نے فرمایا:

قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ (پارہ:6،سورۂ مائدہ:15)

تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان:بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا۔

محبوبِ ذیشان، مکی مَدَنی سلطان  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم  نُور بن کر تشریف لائے، جو اِس نُور کے زیادہ قریب ہو گا، اُس کی انسانیت زیادہ چمکدار، زیادہ کامِل و اکمل ہو گی۔ جو جتنا دُور ہو گا، اُس کی انسانیت میں اتنی ہی کمزوری آتی جائے گی۔

نبوت کے قریب تَرِین درجہ صِدِّیقیت ہے۔([1]) جہاں صِدِّیقیت کا اختتام ہوتا ہے، وہاں سے درجۂ نبوت کا آغاز ہوتا ہے۔ تمام اَوْلادِ آدم میں حضرت ابوبکر صِدِّیق  رَضِیَ اللہُ عنہ  واحِد ہستی ہیں جو صِدِّیقیت کے سب سے بلند تَرِین درجے پر پہنچے، چونکہ آپ درجۂ نبوت کے زیادہ قَرِیب تَرین ہیں، لہٰذا ماننا پڑے گا کہ نُورِ نبوت کا سب سے زیادہ فیضان آپ ہی کو ملا، آپ ہی ہیں جو نبوت کے بعد اِنْسانِیّت کے بلند تَرِین درجے پر فائز ہیں۔

سب سے کامِل اِیْمان والے

صحابئ رسول حضرت عبد اللہ بن عمر  رَضِیَ اللہُ عنہما سے روایت ہے،اللہ پاک کے آخری نبی، رسولِ ہاشمی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم  نے فرمایا:لَوْ وُزِنَ اِیْمَانُ اَبِی بَکْرٍ بِاِیْمَانِ اَہْلِ الْاَرْضِ لَرَجَحَ یعنی اگر ترازُو (Scale)کے ایک پلڑے میں ابو بکر کا ایمان رکھ دیا جائے، دوسرے پلڑے میں تمام اَہْلِ زمین کا ایمان رکھ دیا جائے تو ابو بکر کا ایمان سب زمین


 

 



[1]...فتاوٰی رضویہ،جلد:15، صفحہ:678۔