Book Name:Aadab e Zikr e Rasool صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
ہیں، انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بارگاہِ رِسالت میں اپنی آوازوں کو پست رکھا جائے، (یعنی بارگاہِ رسالت میں ) کسی کو اُونچی آواز میں سانس لینے کی بھی اجازت نہیں۔
اللہ پاک قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:
لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)(پارہ:26، سورۂ فتح:9)
تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:تاکہ(اے لوگو!) تم اللہ اور اُس کے رسول پرایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرو۔
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ اس آیتِ کریمہ کی وضاحت میں فرماتے ہیں: یہاں 3باتوں کا حکم دیا گیا ہے: (1):اللہ پاک پر اِیمان لاؤ! (2):مَحْبوب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی خُوب عزّت و تعظیم کرو! (3):صُبح و شام اللہ پاک کی پاکی بولو! (یعنی عِبَادت کرو!)
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اِس ترتیب پر ذرا غور فرمائیے! پہلے اِیْمان کا حکم ہے، آخر میں عِبَادت کا حکم ہے، دونوں کے درمیان میں تعظیم کا حکم دیا گیا۔ اِس میں اِشارہ ہے کہ مدارِ نجات تعظیمِ رسول ہے، یہ ہو تو اِیْمان بھی قبول ہے، عِبَادات بھی قبول ہیں، یہ تعظیم نہ ہو تو نہ اِیْمان قبول ہو گا، نہ عِبادات ٹِھکانے لگ سکیں گی۔([1])
ثابِت ہوا کہ جملہ فرائِض فروع ہیں
اَصْلُ الْاُصُول بندگی اس تَاجور کی ہے([2])
وضاحت:مَعْلُوم ہوا؛ اللہ پاک نے جتنے فرض بندہ مومن پر لازِم کیے ہیں، وہ شجرِ ایمان کی