Book Name:Aadab e Zikr e Rasool صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
اِسی لفظ کو زبانیں مَروڑ کر ذرا کھینچ تَان کر بولتے، قرآنِ کریم نے فرمایا:
وَّ رَاعِنَا لَیًّۢا بِاَلْسِنَتِهِمْ (پارہ:5، سورۂ نساء:46)
تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:اور رَاعِنا کہتے ہیں زبانیں مروڑ کر۔
یعنی یہ یہودی بھی لفظ راعِنَا بولتے ہیں مگر زبانیں ٹیڑھی کر کے، مروڑ کر بولتے ہیں۔ مثلاً یہ کہا کرتے: راعِیْنا۔ یعنی لفظ رَاعِ میں عین کی زَیْر کو ذرا کھینچ دیتے تھے۔([1])
رَاعِ کا مطلب ہے: ہماری رعایت فرمائیے! اور اگر عَین کی زَیْر کو ذرا کھینچ دیں تو بنتا ہے: راعِیْ ۔ اس کا معنیٰ ہوتا ہے: چرواہا۔
یہ یہودی بدبخت لفظ وہی کہتے تھے جو صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان سراپا اَدَب ہو کر عرض کیا کرتے تھے مگر ذرا کھینچ کر بولتے، جس میں بےادبی والا معنیٰ آجاتا تھا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ اُتری، اللہ پاک نے فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا (پارہ:1، سورۂ بقرہ:104)
تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:اے ایمان والو! راعِنَا نہ کہو ۔
دیکھیے! قرآنِ کریم کا اُسْلُوب کتنا پیارا ہے، شانِ رسالت کے آداب کا اہتمام کتنا زبردست ہے۔ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان جو لفظ عرض کرتے تھے، وہ تَو اَدَب والا ہی تھا، یہ یہود کی بدباطنی تھی کہ اِسی ادب والے لفظ کو بےادبی کے طور پر استعمال کرتے تھے مگر اللہ پاک نے یہاں یہود کو ڈانٹنے، انہیں بےادبیوں سے منع کرنے کی بجائے ہم اَہْلِ ایمان کو فرما دیا:چُونکہ اِس لفظ میں اتنی گنجائش ہے کہ غیر مُسْلِمْ اِسے بےادبی میں استعمال کر لیتے