Book Name:Ahad Torne Ke Nuqsanat
انتقال فرما گئے۔ دِن گزرتے گئے، آخر حسرتیں پُوری ہونے کا وقت آ ہی گیا۔ جب وِلادت ہوئی تو دیکھا؛ بیٹی پیدا ہو گئی۔ دِل بیتاب ہو گیا، تڑپ کر عرض کیا:
رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُهَاۤ اُنْثٰىؕ- (پارہ:3، سورۂ آل عمران:36)
تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان :اے میرے ربّ! میں نے تو لڑکی کو جنم دیا ہے۔
یعنی یا اللہ پاک! میں نے تو مَنّت مانی تھی کہ بیٹا ہو گا، اسے مسجد کی خِدْمت کے لیے وقف کر دُوں گی، یہ تو لڑکی پیدا ہو گئی۔ اب مَنّت کیسے نبھاؤں گی؟
آپ ذرا غور فرمائیے! بڑھاپے میں اَوْلا دملی، شوہَر بھی انتقال فرما چکے ہیں، ایسے میں مَنّت پُوری کرنا سخت دُشْوار ہو جاتا ہے، پِھر بہانہ بھی موجود تھا کہ بیٹا ہوتا تو وقف کرتی، بیٹی ہے، اسے کیسے وقف کر سکتی ہوں؟ مگر آپ کا دِل مضبوط تھا، مَنّت نبھانے کا ارادہ پختہ تھا، چنانچہ اپنی شہزادی کا نام مریَم رکھا اور لے کر مسجدِ اقصیٰ میں پہنچ گئیں، وہاں حضرت زکریا علیہ السَّلام موجود تھے، ان کی خِدْمت میں سارا ماجرا عرض کیا اور بیٹی کو اُن کے حوالے کر دیا۔ اللہ پاک فرماتا ہے:
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًاۙ- (پارہ:3، سورۂ آل عمران:37)
تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان :تو اس کے ربّ نے اسے اچھی طرح قبول کیا اور اسے خوب پروان چڑھایا۔
یعنی حضرت حنَّہ رحمۃُ اللہ علیہا نے چونکہ اپنی مَنّت نبھانے میں خُوب جذبہ دکھایا، چنانچہ اللہ پاک نے ان کی بیٹی کو قبول بھی فرما لیا اور ان کی کفالت کے اَسباب بھی پیدا فرما دئیے!([1])