Book Name:Hazrat Adam Aur Qiyam e Jannat

اُٹھائی، غرض کہ اس نے مَعَاذَ اللہ! حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام کو بہکانے کی سر توڑ کوشش کی مگر یہ بدبخت نہیں جانتا تھا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام نبی ہیں اور انبیائے کرام علیہم السَّلام معصُوم ہوتے ہیں، ان پر شیطان کے داؤ نہیں چلتے، البتہ حکمت یہی تھی، شیطان نے اپنی دُشمنی واضِح کر دی، اللہ پاک نے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام کی حفاظت فرمائی، آپ بھول گئے اور بھول ہی میں وہ جنتی پھل کھا لیا، یوں آپ سے گُنَاہ بھی نہ ہوا اور شیطان کی دشمنی بھی کھل کر سامنے آگئی۔([1])

اے اَوْلادِ آدم! شیطان سے بچو...!!

پارہ:8، سورۂ اعراف میں حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام کا یہی واقعہ ذِکْر کرنے کے بعد اللہ پاک نے ہم انسانوں کو ارشاد فرمایا:

یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَمَاۤ اَخْرَ جَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ (پارہ:8، الاعراف:27)

ترجمہ کنزُ العِرفان:اے آدم کی اولاد! تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا۔

یعنی اے اَوْلادِ آدم! یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا، شیطان تمہارا کھلا دُشمن ہے، وہی ہے جو تمہارے والدین (حضرت آدم و حوّا علیہما السَّلام ) کےجنّت سے نکلنے کا سبب بنا، لہٰذا اس بات کا ہمیشہ لحاظ رکھنا اور بچنا کہ کہیں شیطان تمہیں فتنے میں نہ ڈال دے۔

غرض کہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام کو خلیفہ زمین کے لئے بنایا گیا تھا مگر آپ کو کچھ عرصہ کے لئے جنّت میں رکھا گیا، اس میں حکمت یہ تھی کہ ہم انسانوں کے لئے شیطان کی دُشمنی


 

 



[1]...التبیان مع البیان، پارہ:1، البقرۃ، زیر آیت:36، صفحہ:142-143 خلاصۃً۔