$header_html

Book Name:Quran Ke Sath Hamara Taaluq

یا سنتے ہیں تو ان پر یقین کرتے اور انہیں حق مانتے ہیں، ان کے مُتَعلِّق ارشاد ہوا:

فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-

 ترجمہ کنزُ العِرفان:بہرحال ایمان والے تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے۔

یہاں سے ہمیں ایک سبق سیکھنے کو ملتا ہے، وہ یہ کہ اچھا آدمی وہ ہے جو اعتراض کرنے کی بجائے بات کوسمجھنے کی کوشش کرے،کیونکہ جو بات کو سمجھنے کی بجائے الٹا اعتراض کیا کرتا ہے،وہ اچھا آدمی نہیں بلکہ غیر مسلموں کے نقشِ قدم پرچلنے والا ہے۔

ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی بھرمار ہے، جوبات کو سمجھتے کم اور اعتراض زیادہ کرتے ہیں۔ یہ قانون ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی میں نافِذ کر لیجئے کہ ہم نے سُوال کرنا ہے، اعتراض ہر گز نہیں کرنا۔ کیونکہ سُوال عِلْم کی چابی ہے جبکہ اعتراض ہلاکت کا سبب ہے۔

فرشتوں نے سُوال کیا، شیطان نے اعتراض

دیکھئے! جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السَّلام کی خِلافت کا اعلان فرمایاتو فرشتوں نے بھی ایک سوال کیا تھا، انہوں نے کہا:

اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-  (پارہ:1، البقرۃ:30) ترجمہ کنزُ العِرفان:کیا تُو زمین میں اسے نائب بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا حالانکہ ہم تیری حمد کرتے ہوئے تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتےہیں۔


 

 



$footer_html