Book Name:Nematon Ki Qadar Kijiye
پر تعجب کرتا تو یہ حضرات ربِّ کریم کی دیگر نعمتوں ، کرم نوازیوں اور احسانات کا اس حسین انداز میں تذکرہ فرماتے ، جسے سُن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انہیں ہر طرح کا عیش و آرام میسر ہے۔ آئیے ! ایسے ہی صابر وشاکربزرگ کی ایک ایمان افروز حکایت سنتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والےمدنی پھولوں کو اپنے دل کے مدنی گُلدستے میں سجانے کی کوشش کرتے ہیں ، چنانچہ
حضرت امام اَوزاعی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : مجھے ایک بُزرگ نے یہ واقعہ سُنایا کہ میں اولیائے کرام کی تلاش میں ہر وقت سر گرداں ( حیران و پریشان ) رہتا اور ان کی قیام گاہوں کو ڈھونڈنے کے لئے صحراؤں ، پہاڑوں اور جنگلوں میں پھرتا تا کہ ان کی صحبت سے فیض یاب ہوسکوں۔ ایک مرتبہ اسی مقصد ( Purpose ) کے لئے مصر کی طر ف روانہ ہوا ، جب میں مصر کے قریب پہنچاتوویران سی جگہ میں ایک خیمہ دیکھا ، جس میں ایک ایسا شخص موجود تھا ، جس کے ہاتھ ، پاؤں اورآنکھیں ( جُذّام کی ) بیماری سے ضائع ہوچکی تھیں لیکن اس حالت میں بھی وہ مردِعظیم ان الفاظ کے ساتھ اپنے رب کی حمد وثنا کررہا تھا کہ اے میرے پروردگار ! میں تیری وہ حمد کرتا ہوں جو تیری تمام مخلوق کی حمد کے برابر ہو۔ اے میرے پروردگار ! بے شک تُو تمام مخلوق کا خالق ہے اور تُو سب پر فضیلت رکھتاہے ، میں اس انعام پر تیری حمد کرتا ہوں کہ تُو نے مجھے اپنی مخلوق میں کئی لوگوں سے افضل بنایا۔
وہ بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اس شخص کی یہ حالت دیکھی تو میں نے کہا : خدا کی قسم ! میں اس شخص سے یہ ضرور پوچھوں گا کہ کیا حمد کے یہ پاکیزہ کلمات تمہیں سکھائے گئے ہیں یا تمہیں اِلہام (Revelation ) ہوئے ہیں؟چنانچہ اسی ارادے سے میں اس کے پاس گیا اور اسے سلام کیا ، اس نے میرے سلام کا جواب دیا۔ میں نے کہا : اے مردِ صالح ! میں تم سے ایک چیز کے مُتَعَلِّق سوال کرنا چاہتا ہوں ، کیا تم مجھے جواب دو گے؟وہ کہنے لگا : اگر مجھے معلوم ہوا تو اِنْ شَآءَ اللہ