ALLAH Pak Ki Raza Sab Say Bari Naimat Hai

Book Name:ALLAH Pak Ki Raza Sab Say Bari Naimat Hai

کے مطابق شکل و صُورت بھی دے دی گئی ، اَسْبَاب بھی مہیا فرما دئیے اور اُن اَسْبَاب کو استعمال کرنے کی ہدایت بھی عطا فرما دی۔ ( [1] )  

امام شَعرانی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  اس آیت کی وَضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : یہ آیت تقاضا کرتی ہے کہ اللہ پاک نے اپنی حکمتِ بالغہ کے مطابق جس کو جو عطا فرمایا ہے ، اُس کے لئے کمال وہی ہے * نبیوں کو نبوت عطا فرمائی اُن کے حق میں نبی ہونا کمال ہے * وَلِیّوں کو وِلایت عطا فرمائی اُن کے حق میں وِلایَت کمال ہے * عُلَما کو عِلْم عطا فرمایا ، اُن کے حق میں عِلْم کمال ہے ، غرض جس کو جو بھی عطا ہوا ، اُس کو کمال ہی عطا ہوا۔ ( [2] )

اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ پاک کی بارگاہ سے جس  کو جو بھی مِلا ہے ، 100فیصد ہی مِلا ہے ، کسی کو بھی کم نہیں دیا گیا ، ہاں ! ہر ایک کا 100 فیصد اُس کی صلاحیت اور طاقت کے مطابق ہے۔ مثال کے طَور پرایک نَرْسَری کلاس کا طالبِ عِلْم ہے ، اسے نَرْسَرِی میں 100فیصد نمبر دئیے جائیں تو وہ کس کلاس میں پہنچے گا؟ پَرَیپ میں۔ اسی طرح ایک   B.A کا طالبِ عِلْم ہے ، اسے 100 فیصد نمبر دئیے جائیں تو وہ کونسی کلاس میں پہنچے گا؟ M.A میں۔ یہ فرق کیوں؟ دونوں کو 100 فیصد ہی نمبر ملے تو ایک پریپ میں اور دوسرا  M.A میں کیوں پہنچا؟ بالکل واضِح بات ہے ، نمبر اگرچہ دونوں کو برابر ( یعنی 100فیصد ) ملے  مگر دونوں کی صلاحیت مختلف تھی ، دونوں کی قابلیت مختلف تھی ، بالفرض اگر نَرْسَرِی والے کو 100 فیصد نمبر ملنے پر M.A میں بٹھا دیا جاتا یا  B.A والے کو 100 فیصد نمبر ملنے پر پریپ میں بٹھا دیا جاتا تو دونوں اپنا توازُن کھو بیٹھتے ، دونوں اَن بیلنس ہو جاتے۔


 

 



[1]...روح المعانی ، پارہ : 16 ، سورۂ طہ ، تحت الآیۃ : 50 ، جز : 16 ، جلد : 8 ، صفحہ : 683بتغیر قلیل ۔

[2]...انوار القدسیہ فی بیان آداب العبودیہ ، صفحہ : 30۔