Book Name:Tabaruukat Ki Barkaat
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کے کپڑے ، آپ کے نعلین شریف (یعنی مُبَارَک جوتے) ، حضرت ہارون عَلَیْہِ السَّلام کا عمامہ اور ان کی لاٹھی مُبَارَک تھی۔ بنی اسرائیل کو کوئی مشکل پیش آتی تو وہ اس تابوت کو سامنے رکھ کر دُعا کرتے ، ان کی دُعا قبول ہوتی ، اس تابوت کی برکت سے انہیں جنگوں میں فتح ملتی تھی۔ ([1]) پتا چلا اللہ کے محبوب بندوں سے نسبت رکھنے والی چیزوں میں دِل کا سکون ہے ، ان کی برکت سے مصیبت ٹلتی ہے ، دُعا قبول ہوتی ہے اور اللہ پاک کی رحمت چھما چھم برستی ہے۔
(۳) : لفظ “ شعائر اللہ “ اور اس کی وضاحت
تیسرا لفظ جو قرآنِ کریم نے تَبَرُّکات کے لئے استعمال کیا ، وہ ہے : شَعَائِرُ اللہ۔ شعائِر اللہ کا معنی ہے : اللہ کی نشانیاں۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ چار۴ مرتبہ آیا ہے۔ مُفَسِّر قرآن مفتی احمد یار خان نعیمی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : * ہر وہ چیز جس کو اللہ تعالی نے دینِ اسلام یا اپنی قدرت یا اپنی رحمت کی علامت قرار دیا * ہر وہ چیز جس کو دینی عظمت حاصل ہو ، اس کی تعظیم مسلمان ہونے کی علامت ہو ، وہ شَعَائِرُ اللہ ہے۔ ([2]) ایک مقام پر فرماتے ہیں : انبیائے کرام ، مشائخ (یعنی اولیائے کرام) اور علما بھی شَعَائِرُ اللہ میں داخِل ہیں بلکہ یہ تو شَعَائِرُ اللہ بنانے والے ہیں یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہو جائے وہ شَعَائِرُ اللہ بَن جاتی ہے ، مثلاً * کعبہ شریف اس لئے معظم ہوا کہ اس کو انبیاء سے نسبت ہے ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلام اس کو بنانے والے ، حضرت اسماعیل عَلَیْہِ السَّلام اس کی تعمیر میں مُعَاوَنت کرنے والے ، سیدِ انبیاء ، احمد