Book Name:Islami Bhai Charah

پیارے پیارے اسلامی بھائیو!آئیے!اللہ پاک کی رضا پانے اور ثواب کمانے کے لئے اَچّھی اَچّھی نیّتیں کر لیتے ہیں۔ فرمانِ مُصْطَفٰے  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ’’نِـيَّةُ الْمُؤمِنِ خَـیـْرٌ مِّـنْ عَمَلِهٖ‘‘مُسَلمان کی نِیَّت اُس کے عَمَل سے بہتر ہے۔ ([1])

اہم نکتہ : نیک اورجائز کام میں جِتنی اَچّھی نیّتیں زِیادہ ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔

بَیان سُننے کی نیّتیں

*نگاہیں نیچی کئے توجہ سے بَیان سُنُوں گا۔ *ٹیک لگا کر بیٹھنے کے بجائے عِلْمِ دِیْن کی تَعْظِیم کے لیے جب تک ہو سکا دو زانو بیٹھوں گا۔ *صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبِ ، اُذْکُرُوااللّٰـہ ، تُوبُوْا اِلَی اللّٰـہ وغیرہ سُن  کر ثواب کمانے کےلئے بُلند آواز سے جواب دوں گا۔ *اجتماع کے بعد خُود آگے بڑھ کر سَلَام و مُصَافَحَہ اور اِنْفِرادی کوشش کروں گا ۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                            صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

مکتبۃُ المدینہ کی کتاب “ سیرتِ مُصْطَفٰے “ صفحہ نمبر 185پربخاری شریف کے حوالے سے لکھا ہے : حضرات مہاجرین چونکہ انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں بالکل خالی ہاتھ اپنے اہل و عِیال کو چھوڑ کر مدینہ آئے تھے ، اس لئے پردیس میں بے سروسامانی کے ساتھ وحشت وبیگانگی اور اپنے اہلِ و عیال کی جُدائی کا صَدمہ محسوس کرتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ انصار نے ان مہاجرین کی مہمان نوازی اور دِل جُوئی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ، لیکن مہاجرین دیر تک دوسروں کے سہارے زندگی بسر کرنا پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ ہمیشہ سے اپنے ہاتھوں کی کمائی کھانے کے عادی تھے۔ لہٰذا ضرورت تھی کہ مہاجرین کی پریشانی کو دورکرنے اور ان کے لئے مستقل ذریعۂ معاش مہیا کرنے


 

 



[1]    معجم کبیر ، ۶ / ۱۸۵ ، حدیث : ۵۹۴۲