Ala Hazrat Ki Shayeri Aur Ishq e Rasool

Book Name:Ala Hazrat Ki Shayeri Aur Ishq e Rasool

ایسے چراغ ہیں جس میں کوئی دُھواں نہیں ہے۔

اِس کلام کے آخری شعر میں ریاست نان پارہ کے نواب صاحب کی تعریف میں قصیدہ نہ لکھنے کی عمدہ اور عشق ومحبت میں ڈوبی ہوئی وجہ اِس طرح بیان فرمائی کہ

کروں مَدْحِ اَہلِ دُوَل رضا پڑے اِس بَلا میں مِری بَلا

میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین پارۂ ناں نہیں

(حدائقِ بخشش ، ص۱۰۹)

یعنی اے رضاؔ! کیا میں دولت مندوں ، دنیا کے نوابوں اور حکمرانوں کی تعریف و خوشامد کروں؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ مالداروں کی خوشا مد کرنا ایک بَلا (مصیبت)ہے اور اِس بَلا میں مِری بَلا ہی پڑے۔ (یعنی مجھ سے تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا) جبکہ دوسرے مِصْرَع میں فرماتے ہیں : میں تو اپنے رسولِ کریم ، محبوبِ عظیم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دربار کا بھکاری ہوں۔ میرا دِین “ روٹی کا ٹکڑا “ نہیں کہ جدھر “ مال “ دیکھا اُدھر لُڑھک گئے۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت ، ص۳۰ماخوذًا)اللہپاک ہمیں بھی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جیسی خود داری نصیب فرمائے۔

اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                             صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

خوشامد سے بچیں

پیارے پیارے اسلامی بھائیو!بیان کردہ حکایت سے معلوم ہوا!اللہ والے دنیا والوں کی خوشامد و چاپلوسی نہیں کرتے ، کیونکہ دولت مندوں کی خوشامدتو وہ کرے ، جسے دنیا کی ذلیل دَولت پانے کالالچ ہو ، جبکہ اللہ والے توقناعت کی قیمتی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں ، اللہ والوں کی نظر