Ala Hazrat Ki Shayeri Aur Ishq e Rasool

Book Name:Ala Hazrat Ki Shayeri Aur Ishq e Rasool

کے دل جھوم اُٹھتے اور بِلا اختیار زبان سے سُبْحٰنَ اللہ ، سُبْحٰنَ اللہ کی صدائیں نکلتی ہیں۔ آج کے بیان کا موضوع بھی “ اعلیٰ حضرت کی شاعری اور عشقِ رسول “ ہے۔ اللہ کرے!ہم پورا بیان توجہ کے ساتھ سُننے کی سعادت حاصل کر لیں۔ آئیے! پہلے ایک حکایت سُنتے ہیں :

مالداروں کی چاپلوسی کیوں کروں ؟

ایک مرتبہ رِیاست نان پارہ(ضلع بہرائچ ، یوپی ، ہند) کے نواب کی تعریف میں شاعروں نے قصیدے لکھے۔ سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ بھی ماہر اور عظیم شاعروں میں سے تھے ، لہٰذا آپ سے بھی کچھ لوگوں نے گزارِش کی کہ نواب صاحب کی تعریف میں کوئی قصیدہ لکھ دیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے نواب صاحب کی تعریف میں کوئی قصیدہ تو نہ لکھا البتہ اِس گزارش کے جواب میں  پیارے آقا ، مدینے والے مصطفے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں آپ نے ایک نعت شریف کہی جس کا پہلا شعر یوں ہے :

وہ کمالِ حُسنِ حُضور ہے کہ گمانِ نَقْص جہاں نہیں

یہی پھول خار سے دُور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

(حدائقِ بخشش ، ص۱۰۷)

                                                یعنی رسولِ پاک  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےحُسْن و جمال کا کمال یہ ہے کہ اُس میں کسی قسم کی کمی ہونا تو دور کی بات ہے کسی کمی کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔

دوسرے مصرعے کا مطلب ہے کہ عموماً پھول کے ساتھ کانٹا بھی ہوتا ہے ، چراغ کے ساتھ دُھواں بھی ہوتا ہے ، لیکن آپ باغِ رسالت کے ایسے پھول ہیں جس میں کوئی کانٹا نہیں ہے اور آپ