Book Name:Andheri Qabar

نشے میں بدمست ہو کر ظلم و ستم کی آندھیاں چلانے والا تھا ، داڑھی مُنْڈوانے یا ایک مٹّھی سے گھٹانے والا تھا ، فلمیں ڈرامے دیکھنے دکھانے والا تھا ، گانے باجے سننے سنانے والا تھا ، گالی گلوچ ، جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، تہمت وبدگمانی اور تَکبّرکاعادی تھا ، ماں باپ کا نافرمان تھا ، توہو سکتا ہے کہ مٹّی  کے  اس پُرسکون نظر آنے والے ڈھیر تلے بے قراری کا عالَم ہو ، جہنّم کی کِھڑکی کُھلی ہوئی ہو ، آگ سُلگ رہی ہو ، سانپ اور بچّھو دَفْن ہونے والے  کے  بَدَن پر لپٹے ہوئے ہوں اور ایسی چیخ وپکار مَچی ہوئی ہو جسے ہم سُن نہیں سکتے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :

ارے یہ بھیڑیوں کا بَن ہے شام آ گئی سر پر         کہاں سویا ہے مسافر ہائے کتنا لَااُبالی ہے

اندھیرا گھر ، اکیلی جان ، دَم گھٹتا ، دِل اُکتاتا         خُدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے

          زمیں تپتی ، کٹیلی راہ ، بھاری بوجھ ، گھائل پاؤں                        مصیبت جھیلنے والے تِرا اللہ والی ہے

نہ چَونکا دن ہے ڈھلنے پر تِری منزل ہوئی کھوٹی             ارے او جانے والے نیند یہ  کب کی نکالی ہے

(حدائقِ بخشش ، ص ۱۸۲)

اشعار کی وضاحت : اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اے دنیا کے مسافر  یہ دنیا تو بھیڑیوں کا  جنگل ہے اور رات گویا سر پر ہے جبکہ تو ابھی تک بےخبر سویا ہے ، اس غفلت کا کتنا برا انجام ہوگا۔ دنیا کے گھر کی تو تجھے بہت فکر لگی ہوئی ہےکبھی قبر کی بھی کچھ خبر لی ہے۔ جہاں سخت اندھیرا ہو گا ، سانس لینا دشوار ہوگا ، دل گھبراتا ہو گا ، اس لیے خدا کو یاد کیا کر کیونکہ عنقریب یہ وقت آنےہی  والا ہے۔ اے غافل انسان! جب زمین تانبے کی طرح  ہو گی ، راستہ کانٹوں سے بھرا ہوا ہو گا ، گناہوں کا بھاری بوجھ پہلے ہی سر پر ہوگا ، پاؤں زخموں سے چُور چُور ہوں گے۔ ایسے میں