Book Name:Deeni Tulaba Par Kharch Karna

       اے عاشقانِ صحابہ!ہمیں غورکرنا چاہئے کہ اصحابِ صُفّہ  تو اتنی مشقت کے ساتھ علم ِ دین حاصل کرتے تھے، کیاہم آسانیوں کے باوجودبھی کم از کم ضروری فرض علم حاصل کرتے ہیں؟ اصحابِ صُفّہ کتنی پریشانیاں سہتے ، بظاہر یہ بڑے غریب تھے ، یہ بڑے نادار تھے ، نہ انہیں کچھ کھانے کو ٹھیک طرح ملتا نہ پینے کو ملتا لیکن ان کو یہ شرف ضرورحاصل تھا کہ یہ اصحابِ صُفّہ رسولِ کریم ، رءوفٌ رّحیم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بڑے مُقَرَّب تھے ، آقا کریم عَلَیْہِ السَّلَامان سے بڑی محبت فرماتے۔ ہمارے میٹھے میٹھے آقا ، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس جب کوئی تحفہ ، صدقہ یا مالِ غنیمت آتا تو آپ اس میں سے اصحابِ صُفّہ پر خرچ کرتے۔  احادیث میں آیا ہے کہ آپ   صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   دوسرے صحابہ کو ترغیب دلاتے کہ وہ اصحابِِ صُفّہ کو کھانا کھلائیں  اور ان پر خرچ کریں۔ ان میں سے بعض کے خرچ کے کفیل خود آقا کریم عَلَیْہِ السَّلَامتھے۔ (مرآۃ المناجیح ، ۷ / ۳۵)

      پیارے پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے  ملاحظہ فرمایا کہ اصحاب صفہ کو آقا کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کا خاص قرب حاصل تھا آپ ان پر شفقتوں کا سایہ دراز فرماتے اسی طرح پیارے صحابہ کرام رِضْوَانُ اللہِ عَلَیْھِم اَجْمَعِیْن بھی اصحابِ صُفَّہ کا خاص خیال رکھتے اور ان کی حاجتوں کو پورا کرتے ، آیئے اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمایئے : چنانچہ وہ ستر صحابہ کرام (عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان)  جو بہترین قاری بھی تھے ان کے بارے میں آتا ہے کہ یہ حضرات دن کو لکڑیاں جمع کرکے فروخت کرتے اوراس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے جذبہ خیر خواہی اور بھائی چارہ کے تحت اصحابِ صُفّہ (علم دین حاصل کرنے ولے طلبہ کرام )کے لئے کھانا تیار کرتے اور ان کو کھلاتے تھے  اور رات عبادت میں گزارتے۔ ( مرآۃ المناجیح ، ۲ / ۲۸۴)

آقا کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   کا دینی طلبہ پر خرچ کرنا

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اصحابِ صُفّہ علمِ دین سیکھتے اس لیے پیارے آقا ، میٹھے میٹھے مصطفےٰ   صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   خود بھی ان پر خرچ فرماتے اور دوسروں کو ترغیب بھی ارشاد فرماتے۔ اور ایسانہیں ہے کہ آقا کریم عَلَیْہِ السَّلَامصرف اصحابِ صُفّہ پر ہی خرچ فرماتے۔  آپ کا مال تو دین کیلئے وقف تھا۔ جتنا بھی مال آپ کے پاس آتا ، آپ راہِ خدا میں خرچ فرمادیتے تھے۔

حضرت سَیِّدُناابُوذَررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک روز میں نبیِّ اکرم ، نُورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ تھا ، جب آپ نے اُحد پہاڑکو دیکھا تو فرمایا : اگر یہ پہاڑ میرے لئے سو نا بن جائے تومیں  پسند نہیں  کروں گا کہ اس میں سے ایک دِیناربھی میرے پاس تین(3) دن سے زِیادہ رہ جائے ، سِوائے اُس دِینار کے جسے میں اَدائے قرض کے لئے رکھ چھوڑوں۔

(بخاری  ، کتاب فی الاستقراض الخ ، باب اداء الدیون ،  ۲ /  ۱۰۵ ،  حدیث : ۲۳۸۸)

رب کریم قرآن پاک میں فرماتا ہے 

وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕ(۱۰) (پ۳۰ ، الضحی : ۱۰)

ترجمہ کنز الایمان : اور منگتا کو نہ جھڑکو۔