Book Name:Deeni Tulaba Par Kharch Karna

عامربن فہیرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَابھی ہیں۔       (مجمع الزوائد ، کتاب المناقب ، باب جامع من فضلہ  ، ۹ / ۳۵ ، حدیث  : ۱۴۳۴۰)

       منقول ہے کہ حضرت سیدنا بلال حبشی رَضِیَ اللہُ عَنْہکواسلام لانے کے بعدبہت اذیتیں دی جاتی تھیں ، حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہنے حضرت سیدنابلال حبشی رَضِیَ اللہُ عَنْہکوپانچ اوقیہ( تقریباً32تولے )سونا ادا کرکے خریداتو فروخت کرنے والوں نے کہا : ابوبکر ! اگر تم صرف ایک اوقیہ سونے پر اَڑ جاتے توہم اتنی قیمت میں ہی اسے فروخت کردیتے۔ آپ نے فرمایا : اگر تم سو(100)ا وقیہ سونا مانگتے تو میں وہ بھی دے دیتا اور بلال کو ضرور خریدتا۔   (الریا ض النضرۃ ، ج۱ص۱۳۳)

       حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہ عَنْہ کے معمولات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اسلام کی مدد و نصرت کیلئے آپ نے کھُلے دل سے اپنا ذاتی مال و اسباب خرچ کیا۔ اپنے مال سے مصطفےٰ کریم   صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم    کی ایسی خدمت کی کہ  آقا کریم   صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   نے خود ارشادفرمایا : مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہ دیا جتنا ابوبکر صدیق کے مال نے دیا۔

( ابن ماجۃ ، کتاب السنۃ ،  باب فی فضائل اصحاب رسول اللہ ، ۱ / ۷۲  ، الحدیث : ۹۴)

حضرت عثمانِ غنی  کا دین کیلئے خرچ کرنا

       اسی طرح اَمِیْرُالمؤمنین حَضرتِ سیدنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ عَنْہ کا دین کیلئے خرچ کرنا  بھی بہت مشہور ہے۔ کئی دفعہ آپ نے دین کیلئے خرچ کرنے پر آقا کریم   صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   سے جنت کی خوشخبریاں پائی ہیں۔ مدینہ شریف میں مہاجرین کی ضرورت پر آپ نے کنواں خرید کر دین کیلئے وقف فرمایا۔ اسی طرح غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے 950اُونٹ ، 50گھوڑے اور1000اَشْرَفیاں پیش کیں ، پھر بعدمیں10ہزار اَشْرَفیاں اور پیش کیں۔ (مرآۃ المناجیح ، ۸ / ۳۹۵)جب بھی ضرورت ہوتی آپ دینِ اسلام کیلئے خرچ کرنے سے بالکل نہیں ہچکچاتے تھے۔

       اسی طرح دیگر صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے بھی کئی واقعات ہیں کہ وہ دین کیلئے خرچ کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔

       پیارے اسلامی بھائیو!اس سے ہمیں بھی درس ملتا ہے کہ دین کیلئے اپنا مال دینے ، خرچ کرنے میں پیش پیش رہنا چاہیے۔ اگر ہم بزرگوں کے واقعات دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ دین کیلئے ایسی جگہ خرچ کیا جائے جس کے فوائد وقتی نہ ہوں بلکہ آنے والوں کو بھی اس سے فائدہ ہو۔ اس سلسلے میں کروڑوں حنفیوں کے امام ، حضرت سیدنا امامِ اعظم ابوحنیفہرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا اپنے شاگرد حضرت امام ابویوسف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  کی کفالت کا واقعہ ہمارے لیے روشن مثال ہے۔ آئیے! اس بارے میں سنتے ہیں :

امامِ اعظم نےعلم بھی عطا کیا اور مال بھی !

حضرت امام ابو یوسف رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ خود فرماتے ہیں کہ میں نے حدیث  اور فقہ کے طالبِ علم کی حیثیت سے کُوفہ میں وقت گزارا۔ شروع میں بہت تنگ دست اور غریب  گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ، میرے  والد مجھے ایک دن حضرت امام ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  کی خدمت میں لے گئے ، میں وہاں پڑھنے لگا ، میرے والد نے گھر آکر مجھے کہا : بیٹا! حضرت امام ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی طرف پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھا کرو ، یہ بے ادبی کا انداز ہے۔