Book Name:Khud Kushi Kay Asbab
اس میں کچھ شک نہیں کہ عام طور پر انسان کو سب سے زیادہ عزیز اپنی جان ہوتی ہے۔لیکن اگر حالات کمزورہونے کی وجہ سے زندگی وبالِ جان بن جائے اور اُمید کی کوئی روشن کِرن دکھائی نہ دے تو ایک عام آدمی کی قوتِ برداشت جواب دینے لگتی ہے اور اسے زندگی سے راہِ فراراختیار کرنے کے علاوہ اورکوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
یاد رکھئے! مایوسی بھی خود کشی کی طرف لے جاتی ہے۔حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں،مگر اُمید کا دامن ہاتھوں سے نہیں چُھوٹنا چاہیے۔ایک آدھا بھرا ہوا گلاس میز پر رکھا ہو تو ایک اچھی امید والے شَخْص کو وہ آدھا بھرا ہوا نظر آئے گا جبکہ ایک مایوس شَخْص کو یہی گلاس آدھا خالی دکھائی دیتا ہے۔اُمید اور نااُمیدی میں سوچ کا فرق ہوتا ہے،اللہ پاک کی رحمت پر نظر رکھتے ہوئے بندہ ہمیشہ مُثْبَت (Positive)سوچے اور مَنْفِی(Negative) سوچ کو قریب بھی مت آنے دے۔ ایک مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ پاک کی رحمت سے اُمید رکھنے والا ہوتا ہے۔قرآنِ پاک میں بھی یہی حکم ہے،چنانچہ
پارہ 13سورۂ یوسف کی آیت نمبر87 میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰه
تَرجَمۂ کنزُالعرفان:اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو
پىارے پىارے اسلامى بھائىو!معلوم ہوا!اللہ پاک کی رحمت سے مایوں نہیں ہونا چاہئے۔مصیبتوں، پریشانیوں، بے جامخالفتوں،ظلم کی تیز آندھیوں، گھریلو ناچاقیوں، معاشی پریشانیوں اور شادی کی رکاوٹوں سمیت بڑی سے بڑی مصیبتیں آجائیں،ہمیں اُمید کا دامن ہرگز نہیں چھوڑنا چاہئے۔ان مصیبتوں میں توبہ و اسْتِغْفار کریں اور اللہ پاک سے دعا کریں۔ وہ ربِّ کریم ایسے اسباب پیدا کر دے گا کہ خوشیوں کی برسات ہونے لگے گی۔ اِنْ شَآءَ اللہ