Book Name:Kamsin Auliya-e-Kiraam

تھی جس کے باعِث نذر پوری ہونا بَظاہِر ناممکن ہو گیا تھا، حضرت حَنَّہرَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا نے اس بچی کا نام رکھا اور چونکہ آپ اسے بَیْتُ المقدس میں رکھنے کی نِیَّت کر چکی تھیں،اس لیے اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر بَیْتُ المقدس کی طرف چل دِیں۔

       بَیتُ المقدس میں اس وقت چار ہزار خُدَّام رہتے تھے اور ان کے سردار ستائیس(27) یا ستر (70) تھے۔ جن کے امیر حضرت زَکَرِیَّا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے۔([1]) حضرت حَنَّہرَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا اپنی بیٹی کو لے کر جب یہاں پہنچیں تو اسے یہاں کے عُلَماء کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا: یہ میری بیٹی ہے جسے میں نے (اللہ پاک کی عِبَادت اور بَیْتُ المقدس کی خدمت کے لیے) آزاد (یعنی وَقْف) کر دیا ہے۔ اگرچہ لڑکیاں اس خدمت کی صلاحیت نہیں رکھتیں مگر (چونکہ میں اسے وَقْف کر چکی ہوں اس لیے) میں اسے لوٹا کر گھر بھی نہیں لے جا سکتی لہٰذا آپ حضرات میری یہ نذر قبول فرما لیجئے۔([2]) ان علماءِ کرام نے اس بچی کی پرورش کو اپنے لیے عزت و وقار کا سبب جانا اور ہر ایک اس کےلیے اپنی خدمات پیش کرنے لگا۔  بالآخر اس پاک باز بچی کی پرورش کا ذمہ حضرت زَکَرِیَّا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ملا جو اُن عُلَما کے سردار اور بچی کے خالو تھے۔ ([3])

       آپ عَلَیْہِ السَّلَامنے بَیْتُ المقدس میں فرشِ مسجِد سے قدرے بلند ایک کمرہ بنایا اور وہاں اس بچی کو رکھا،یہاں سِوائے آپ کے اور کوئی نہ جاتا تھا۔ کھانے پینے وغیرہ کا سامانِ ضرورت بھی آپ ہی لے


 

 



[1]...تفسیر نعیمی، پ۳، آلِ عمران، تحت الآیہ:۳۷، ۳/۳۸۱، بتغیر قلیل۔

[2]...الدر المنثور، پ٣، آلِ عمران، تحت الآية:٣٦، ٢/١٨٣.

[3]...تفسیر نعیمی،پ۳، آلِ عمران، تحت الآیہ:۳۷، ۳/۳۸۱، بتغیر۔تفسير الخازن، پ٣، آلِ عمران، تحت الآية:٣٧، ١/٢٤١، مختصرًا۔تفسیر الجلالین مع حاشية الصاوى، پ٣، آلِ عمران، تحت الآية:٣٧، ١/٢٣١، مختصرًا.