Book Name:Kamsin Auliya-e-Kiraam

عجیب شکایت سُن کر والد صاحب کچھ دیر تک سوچتے رہے پھر فرمایا:اب تم  ہی بتاؤکہ اس سلسلے میں میں کیا کرسکتا ہوں ؟ کسی کے مذہب تبدیل کرلینے میں میرے بیٹے کا کیا قُصُور؟ بھلا میں اُسے نظر اٹھا کر دیکھنے سےکیسے منع کرسکتا ہوں؟ سربراہ نے کہا: قُصُور بچے کی دایَہ کا ہے جو اسے وقت بے  وقت  بازار لےجاتی ہے ۔آپ سے یہ گزارش ہے کہ آپ بچے کی سیر کے لئے ایک وقت مقرر کردیں۔ لہٰذا بازید محمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِنے سختی کے ساتھ دایہ کو ہدایت کردی کہ وہ ایک مقررہ وقت پر سلطان باہو کو باہر لے جایاکرے۔اس کے بعد  شہر کے غیرمسلموں نے اس کام پر چند نوکر رکھ لئے کہ جب سلطان باہو رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ اپنے گھر سے نکلیں تو بازاروں اور گلی کوچوں میں اُن  کی آمد کی خبرپہنچا دی جائے  لہٰذا جب  نوکر خبر دیتے تو غیرمُسلم اپنی اپنی دُکانوں اورمکانوں میں چھپ  جاتے۔ (مناقب سلطانی، ص ۲۷ ، ملخصاً، وغیرہ)

بارگاہِ رسالت سے فیوض و برکات

 اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے سلطان باہُو رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خود فرماتے ہیں: بچپن میں ایک دن سڑک کے کنارےکھڑاتھاکہ ایک بارُعب، صاحبِ حشمت،نورانی صورت والے بُزرگ  گھوڑے پر تشریف لائے اور میراہاتھ پکڑ کر اپنے  پیچھے بٹھالیا،میں نے ڈرتے اور کانپتے ہوئے پوچھا: آپ کون ہیں؟ ارشاد فرمایا:میںعلی بن ابی طالب“ہوں،میں نے عرض کی:مجھے کہاں لے جارہے ہیں؟فرمایا:پیارے آقا،محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم سے تمہیں ان کی بارگاہ میں لے جارہا ہوں۔ بارگاہِ رسالت میں حاضری ہوئی تو وہاں  امیرالمؤمنین حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ِاعظم اور حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ بھی جلوہ فرما تھے