Book Name:Kamsin Auliya-e-Kiraam

میرا انتظارکریں ورنہ اپنی مچھلی لے جائیں۔“

       حضرت شیخ ابو عبداللہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے والد نے کہا:اس لڑکے کامزدور ہونے کے باوجوداللہ پاک پر کیسا توکُل ہے، پھر ہمیں توبدرجہ اولیٰاللہپاک کی ذاتِ اقدس پر کامل بھروسا کرنا چاہئے۔ چنانچہ مچھلی وہیں چھوڑ کر ہم لوگ نماز پڑھنے کے لئے چلے گئے۔ ہم لوگ نماز پڑھ کر نکلے تو مچھلی اپنی جگہ پر موجود تھی۔ لڑکے نے مچھلی اٹھائی اور ہم لوگ گھر پہنچے ۔حضرت شیخ ابو عبداللہ  رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے والد نے یہ واقعہ اپنی زوجہ کو بتایا۔اُن کی والدہ نے یہ سُن کر کہا: ”اس لڑکے سے کہیے تھوڑی دیر رُک کر ہم لوگوں کے ساتھ مچھلی کھانے میں شریک ہوجائے، لڑکے نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ شیخ کے والد نے کہا: ”اگر ایسی بات ہے تو شام کو آکر یہیں کھانا کھالیجئے گا۔لڑکے نے کہا: میرا طریقہ یہ ہے کہ جب ایک بوجھ اٹھالیتا ہوں تو دوبارہ نہیں اٹھاتا،یعنی  دن میں ایک ہی بار مزدوری کرتا ہوں،اب کسی قریب کی مسجد میں جا کر رہوں گا اور اِنْ شَآءَ اللہ شام کو آجاؤں گا۔“

       شام ہوئی تو وہ مزدور لڑکا آیا اور سب نے مل کر کھانا کھایا ، کھانے سے فارغ ہو کر وہ لڑکا وضو کر کے ایک کونے میں جا بیٹھا۔ حضرتِ جلاء رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ اور ان کے والد نے جب دیکھا کہ یہ مزدور لڑکاتنہائی پسند ہے، تو اُسے چھوڑ کر ایک طرف ہو گئے۔ حضرت شیخ ابو عبداللہ جلاء رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے گھر میں ایک عورت اپاہج(معذور) تھی ،رات کوگھر والوں نے اُس اپاہج(معذور) عورت کو بغیر سہا رے کے ازخود چلتے دیکھاتو حیران رہ گئے اور اس سے شفایا بی کا سبب پوچھا تو اس نے کہا: ”میں نے اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کی تھی:اے ربِّ کریم! مجھے اس کمسن مہمان کی بَرَکت سے شفا عطا فرمادے ۔“اللہ پاک نے میری دعا قبول فرمائی اور مجھے شفاعطا فرمادی۔

       حضرت شیخابوعبداللہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ اور ان کے گھر والے جب اُس کمرے کی طرف گئے ، جہاں