Book Name:Rishtay Daron Kay Sath Acha Sulook Kejiye

اورغیبتیں کی جاتی ہیں۔بدقِسمتی سے عِلْمِ دِین سے دُوری کی وجہ سے آج کل معاشرے میں یہ ماحول بھی عام ہوتاجا رہاہے کہ کسی موقع پرلَین دَین کے معاملات میں بھی یہی اندازاختیارکیا جاتاہےکہ جتنے پیسے فُلاں نے دیے،ہم بھی اُتنے ہی دیں گے،حتّٰی کہ بعض نادان کسی رِشتہ دارکے فوت ہونے پرنمازِ جنازہ تک میں شرکت نہیں کرتے،ایک دُوسرے کی خوشی اورغم میں شریک نہیں ہوتےکیونکہ چھوٹی چھوٹی  ناراضیوں کے سبب یہ ایک دُوسرے کے دُشمن بن چکے ہوتےہیں۔اِسی طرح جو رِشتے دار اِس کے یہاں کسی تقریب میں شرکت نہیں کرتا تویہ اُس کے یہاں ہونے والی تقریب کا بائیکاٹ کردیتا ہے اوریُوں فاصِلے مزید بڑھائے جاتے ہیں۔حالانکہ کوئی ہمارے یہاں شریک نہ ہوا ہو تو اُس کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کے کئی پہلو نکل سکتے ہیں،مَثَلاً وہ نہ آنے والا بیمار ہو گیا ہوگا،بھول گیا ہوگا، ضروری کام آپڑا ہوگا،یا کوئی سخت مجبوری ہوگی جس کی وضاحت اُس کے لئے دشوار ہوگئی ہوگی وغیرہ۔وہ اپنی غیر حاضری کا سبب بتائے یا نہ بتائے،ہمیں اچھا گمان رکھ کر ثواب کمانا اور جنّت میں جانے کا سامان کرتے رہنا چاہئے۔ فرمانِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَہے:حُسْنُ الظَّنِِّ مِن حُسْنِِ الْعِبَادَۃِ یعنی اچھا گمان بہترین عبادت سے ہے۔(ابوداود،کتاب الادب،باب فی حسن الظن ،۴ /۳۸۸،حدیث: ۴۹۹۳)

حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمیرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہاِس حدیثِ پاک کے مُختلِف مطالِب بَیان  کرتے ہوئے لکھتے ہیں :یعنی مسلمانوں سے اچھا گمان کرنا ،اُن پر بدگمانی نہ کرنا ،یہ بھی اچھی عبادات میں سے ایک عبادت ہے ۔(مِرآۃُ المَناجِیح،۶/۶۲۱)

جنت کا مَحَل اُس کو ملے گا جو۔۔۔

بالفرض ہمارا کوئی رشتے دار سُستی کے سبب یا کسی بھی وجہ سے جان بوجھ کر ہمارے یہاں نہیں آیا