Book Name:Rishtay Daron Kay Sath Acha Sulook Kejiye
اگرکوئی پردیس میں ہے،والِدَین اِسے بُلاتے ہیں تو آنا ہی ہوگا، خط لکھنا (میل کرنا،کال کرنا یابذریعہ انٹرنیٹ رابطہ کرنا)کافی نہیں ہے۔یوہیں والِدَین کو اِس کی خدمت کی حاجت ہو تو آئے اور اِن کی خدمت کرے، باپ کے بعد دادا اور بڑے بھائی کا مرتبہ ہے کہ بڑا بھائی باپ کے قائم مقام(یعنی باپ کی جگہ) ہوتا ہے، بڑی بہن اور خالہ،ماں کی جگہ پر ہیں،بعض عُلَمَا نے چچا کو باپ کی مِثْل(جیسا)بتایا اور حدیث:عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ اَبِـیْہِ([1]) (یعنی آدَمی کا چچا باپ کی طرح ہوتا ہے )سے بھی یہی نتیجہ نکلتاہے۔اِن کے علاوہ اَورَوں کے پاس خط یا تحفہ بھیجنا کفایت کرتا ہے(یعنی کافی رہےگا)۔(رَدُّالْمُحتار،۹/۶۷۸)
(5) کس کس رشتے دار سے کب کب ملے؟
رشتے داروں سے وقفہ دے کرملتا رہے یعنی ایک دن ملنے کو جائے دوسرے دن نہ جائےکہ اِس سے مَحَبَّت و اُلفت زیادہ ہوتی ہے،بلکہ قرابت داروں سے جُمعہ جُمعہ ملتا رہے یا مہینے میں ایک بار اور تمام قبیلے اور خاندان کومُتَّحِدہونا چاہیے،جب حق ا ُن کے ساتھ ہویعنی وہ حق پر ہوں تو دوسروں سے مقابَلہ اور حق کو ظاہر کرنےمیں سب مُتَّحد ہو کر کام کریں۔(کتاب الدُرَر الحکام،۱/۳۲۳)
دورِحاضرکی سہولت سے فائدہ اُٹھاتےہوئے ای میل(E-Mail)،واٹس ایپ(WhatsApp)، فون،صوتی پیغام(Voice Message)کے ذریعے بھی دِلجوئی کی جائے۔
(6)رشتے دار حاجت پیش کرے تو ردّ کرد ینا گناہ ہے
جب اپنا کوئی رشتے دار کوئی حاجت پیش کرے تو اُس کی حاجت پوری کرے، اُس کو رَد کردینا (یعنی حیثیت ہونے کےباوجودمددنہ کرنا)رِشتہ توڑناہے۔( کتاب الدُرَر الحکام،۱/۳۲۳)(یادرہے!رشتے داروں سے