Book Name:Ezaa-e-Muslim Hraam Hay
کیا ہوتا ہے۔ یا کبھی کبھار تو ایسا چلتا ہے۔ یا صرف اپنا مطلب دیکھنا چاہیے وغیرہ۔ یاد رکھئے! یہی وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں کئی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں اور یہی وہ سوچ ہے جو ایذائے مسلم کے بڑھتے ہوئے واقعات کی بڑی وجہ بن رہی ہے۔ آج کل کے لوگوں کا یعنی ذہن کیا بن چکا ہے، اسے اس حکایت سے سمجھئے۔
کہتے ہیں ایک زمانے میں کسی شہر میں دودھ کی کمی ہو گئی، اعلان ہوا کہ سب شہر والے فُلاں کنویں میں ایک ایک گلاس دودھ(Milk) ڈالیں ، جب ایک جگہ دودھ جمع ہو جائے گا پھر اس کے بعد مناسب طریقہ کار سے دودھ کی کمی ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ بادشاہ کا حکم تھا اس لئے سب کو دودھ ڈالنا تھا ، ایک شخص کنویں کے پاس گیا اور سوچا کے سب لوگ ہی دودھ ڈالیں گے، میں نے اگر ایک پیالہ پانی اس میں ڈال دیا تو کیا فرق پڑتا ہے اور کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا ۔ یہ سوچا اور اس نے کنویں میں ایک گلاس دودھ کے بجائے پانی ڈال دیا۔ صبح جب اس کنویں سے پردہ ہٹایا گیا تو وہ سارا کنواں پانی سے بھرا ہوا تھا !یعنی ہر بندے نے یہی سوچا کہ میرے ایک پیالہ پانی ڈالنے سے کیا فرق پڑےگا ۔
آج کا ماحول بھی کچھ ایسا ہی بنتا جا رہا ہے، عمومی سوچ یہ ہوتی جارہی ہے کہ میرا بھلا ہو جائے، چاہے سامنے والے کا بیڑا غرق ہو جائے۔ حالانکہ اسلام اس سوچ کی نفی کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگوں کی سوچ یہ تھی کہ میں رہ جاؤں میرے بھائی کا کام بن جائے ۔جبکہ آج یہ سوچ بنتی جا رہی ہے کہ میرا کام ہونا چاہئے،دُوسرا میری وجہ سے چاہے تکلیف میں آئے۔
سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اعلیٰ کردار