Book Name:Nabi e Kareem Kay Mubarak Ashaab ki Fazilat

اگرکسی کے سامنے صحابَۂ کرام عَلَیْھِم الرِّضْوان  کا بُرائی سے ذِکْر کیا جائے، مثلاً ان کی طرف کسی عَیْب کی نِسْبت کی جائے تو اس میں مبُتلا ہونے سے روکنا نہ صرف واجب ہے بلکہ تمام بُرائیوں کی طرح طاقت کے مطابق پہلے اپنے ہاتھ، پھر زبان اور پھر دل سے اس کا اِنکار کرنا واجب ہے، بلکہ یہ گُناہ سب سے زِیادہ بُرا ہے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،ص۸۳۴ملخصاً)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا!صحابَۂ  کرام پر’’لعن طعن‘‘کرنا بہت بُرا کام ہے کہ اللہ  پاک   اور اس کے رسول،رسولِ مقبول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمتو  اُن کی تعریف کرتے ہیں اور یہ  گُستا خ  ان کی ذات کوطَعَن وتَشْنِیْع کا نشانہ بناتا ہے۔ یقیناًاس کا یہ فعل عقیدے کی کمزوری اور نِفاق کے سبب سے ہے۔ایسے لوگ  آخرت میں تو ذَلیل وخوار اور عذابِ نار کے حَقْدار ہونگے  دُنیا میں بھی لوگوں کیلئے نشان ِ عبرت بن جاتے ہیں ۔ جیساکہ  

  گُستاخ بندر بن گیا

حضرت سیِّدُنا نورُ الدّین عبد الرحمٰن جامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنی مشہور کتاب شَواہِدُ النَّبُوَّۃ میں نقل کرتے ہیں:تین افراد یَمَن کے سفر پر نکلے،ان میں ایک کُوفی(یعنی کوفے کا رہنے والا) تھا،جوشیخینِ کریمین(یعنی حضرت سیدنا ابو بکر صِدّیق اور حضرت سیدنا عُمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما)کا گُستاخ تھا،اُسےسمجھایا گیا لیکن وہ باز نہ آیا۔ جب یہ تینوں یمن کے قریب پہنچے تو ایک جگہ قیام کیا اور سوگئے۔ جب واپسی کا وقت آیا تو ان میں سے دو نے اُٹھ کر وضو کیا اور پھر اُس گستاخ کُوفی کو جگایا۔ وہ اُٹھ کر کہنے لگا: افسوس! میں تم سے اِس منزل میں پیچھے رہ گیاہوں! تم نے مجھے عین اُس وقت جگایا جب شَہَنْشاہِ عرب و عجم، مَحبوبِ ربِّ اَکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم میرے سرہانے تشریف فرما ہو کرارشادفرما رہے تھے: اے فاسق! اللہ