Book Name:Nabi e Kareem Kay Mubarak Ashaab ki Fazilat

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اَمِیْرُالْمُوْمِنیْنحضرت سَیِّدُناعلی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اپنے دَوْرکے مُسلمانوں کی عَملی حالت پر کُڑھن کا اِظہار کرتے ہوئے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی عِبادت ورِیاضت ،قرآنِ پاک کی تِلاوت پر اِسْتِقامت کویاد فرمارہے ہیں۔جبکہ  ہمارا مُعامَلہ یہ ہے کہ دِن بَدن گُناہوں کی دَلْدَل میں دَھنستے جارہے ہیں ،ہمارے شب وروز اللہ  پاک اور نبیِّ پاک ،صاحبِ لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانیوں میں بسر ہورہے ہیں ۔اَوّلاًتو  نیک عمل کرتے نہیں  اگر کوئی نیکی کر بھی  لیں تویہ تَمنّا ہمیں تنگ کرتی رہتی ہے کہ لوگوں میں ہماری واہ واہ ہوتی رہے ۔ نیک نامی بڑھتی رہے۔ اے کاش! ہمیں یہ سعادت مل جائے کہ ہم اپنی نیکیوں کو بھی اُسی طرح چُھپائیں جس طرح اپنے گُناہوں کوچُھپاتے ہیں، اور بس اِسی کو کافی سمجھیں کہ اللہ پاک ہماری نیکیاں جانتا ہے۔بِالْخُصُوص پَوشیدہ نیکی کرنے کے بعدنَفْس کی خُوب نگرانی کی جائے کیوں کہ ہوسکتا ہے یہ عِبادت ظاہر کرنے کی حِرْص نَفْس کے اَنْدر جوش مارے اوروہ کچھ اِس طرح پھنسانے کی ترکیب کرے کہ اپنی یہ عبادت لوگوں پر ظاہر کر دے کہ اِس طرح نیکیاں چُھپائے رکھنے سے جب لوگوں کو تیرے مَقام و مَرتبے کا علم ہی نہیں ہوگا تووہ بے چارے تیری پَیروی سے مَحْروم رہ جائیں گے، ایسے میں تُولوگوں کا مُقْتَدا (یعنی پیشوا و رَہْنُما) کیسے بنے گا؟تیرے ذَرِیعے نیکی کی دعوت کیسے عام ہوگی ؟ وغیرہ ۔ ایسی صورت میںاللہ پاک سے اِسْتِقامت و ثابِت قَدَمی کی دُعا کرنی چاہئے اور اپنے عمل کے بدلے میں ملنے والی جنَّت کی عظیمُ الشّان دائمی نعمت یاد کرنی چاہئے۔ خود کو ڈرانا چاہئے کہ جو شخص اللہ پاک   کی عبادت کے ذَرِیعے اس کے بندو ں سے اَجر (یعنی بدلے )کا طالِب ہوتا ہے، اُس پر اللہ پاک کا غَضَب نازِل ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسروں کے سامنے اپنا عمل ظاہر کرنے کی وجہ سے وہ ان کے نزدیک تو محبوب (یعنی پیارا) ہوجائے لیکن اللہ پاک کے نزدیک اُس کا مقام ومرتبہ گِرجائے ! تو کہیں اِس طرح میرا عمل بھی ضائِع نہ ہوجائے! پھر نفس کو اِس