Book Name:Fazail e Sadqat

گھرمیں کوئی نہیں پہنتااوروہ جُوتےجوپہننےکےقابل ہی نہیں ہوتے،ان کی اِمداداورصدقہ کےطورپربھیج دئیے جاتےہیں۔ذر اسوچئے تو سہی  یہ کیسی  عجیب  باتہےکہ جب اپنےکھانے پینےیا اِستِعمال کی بات آئے تو عُمدَہ سےعُمدَہ چیز کااِنتِخاب (Selection)کیا جائےاورجب بات راہِ خُدا میں دینےکی آئےتو بچی کھچی یا کم قیمت والی چیزیں صدقہ وخیرات  کی جائیں ۔اپنے بچوں کیلئے تو اَعلیٰ سے اَعلیٰ کوالٹی کی چیزیں خریدی جائیں لیکن جب کسی غریب کے بچے کودینا ہوتو گھٹیا معیار کی چیزبھی احسان جتاکر دی جائے ۔ہم اپنے  گھر میں تو اپنے من پسند کھانے بڑے اہتمام کے ساتھ کھائیں  لیکن  اسی دوران کوئی سائل آجائے تو اسے دُھتکار دیں یا گھر میں بچا ہوا باسی سالن جسے کوئی نہ کھائے اسے تھماکر اس خوش فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ چلو کھانا ضائع ہونے سے بچ گیا اور  کسی غریب کا بھلا ہوگیا مگر ہمارے  بزرگانِ دِین کا انداز اس معاملے میں بھی نرالا(Strange) ہوا کرتا تھا کہ یہ حضرات اپنی خواہش پر  کبھی اچھا کھانا پکواتے اور اسی دوران کوئی  سوالی درِ دولت پر حاضر ہوکر صدا لگاتا تو یہ نیک لوگ اپنی خواہش کو قربان کر کے اپنی پسندیدہ چیز سائل کو دے دیا کرتے تھے ،چنانچہ 

          حضرت سیِّدُنا سعید بن اَبی ہِلَال رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا ابنِ عمر رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُمَا نے مقامِ جُحْفَہ میں پڑاؤکیا۔ اس وقت آپ کچھ بیمار تھے، آپ نے مچھلی کھانے کی خواہش ظاہر کی، رُفقا نے تلاش کیا کی، لیکن صرف ایک ہی مچھلی دستیاب ہو سکی۔ آپ کی زوجہ حضرت صَفِیَّہ بنتِ اَبی عُبَیْدرَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہَانے مچھلی پکاکرخدمت میں پیش کر دی۔ اتنے میں ایک مسکین ان کے پاس آ کرکھڑا ہو گیا۔ آپ نے اس سے فرمایا :مچھلی اُٹھا لو۔یہ دیکھ کرزوجہ نے عرض کی:سُبْحَانَ اللہ !اس مچھلی نے تو ہمیں تھکا دیا ہے اور سائل کو دینے کے لئے ہمارے پاس دوسرا کھانا بھی موجود تھا وہ اسے دے دیتے۔آپ نے فرمایا: لیکن عبداللہ کو تو یہ مچھلی پسند تھی(اور پسندیدہ چیز کاصدقہ افضل ہے)۔(تاریخ ابن عساکر،عبداﷲ بن عمربن الخطاب،۳۱/۱۴۳)