Book Name:Fazail e Sadqat

دکانوں وغیرہ پر یہ بکس(Box) رکھے جاتے ہیں،انہیں چاہیے کہ اچھی اچھی نیّتوں کے ساتھ خود بھی کچھ نہ کچھ رقم اس بکس میں   ڈالتے رہیں  اور گاہکوں(Customers)پر اِنفرادی کوشش کرکے انہیں بھی راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کی ترغیب  دِلائیں،اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ  دعوتِ اسلامی کے مدنی کاموں   میں ترقی کیلئے آپ کی   یہ  کاوش بارگاہِ الٰہی میں   قبول ہوگی   ۔

مگر افسوس! آج کل صَدَقہ و خَیْرات کے ذریعے غریبوں کی مَدَد کرنے اور نیکی کے کاموں میں مال خرچ کرنے کے بجائے فضول  اور غیر ضروری کاموں کیلئے تو اپنے خزانے کے مُنہ کھول دئیے جاتے ہیں، مگر اس بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی کہ ہمارے اِرْد گرد مُعاشرے کے ٹھکرائے ہوئے بہت سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جن کے پاس نہ تو سر چُھپانے کیلئے مُناسب جگہ ہے،نہ تَن ڈھانپنے کیلئے لباس ہے اور نہ ہی پیٹ کی آگ بُجھانے کیلئے بقدرِ ضرورت روٹی۔اگر ہم اپنی جائز خُوشیوں کے ساتھ ساتھ حتّی الامکان  ایسے سفید پوش لوگوں کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھیں اور اُن کے ساتھ ہمدردی بھرا سُلوک کریں تواللہ  پاک اپنی رحمت سے آخرت میں تو اس کاصِلہ عطا فرمائے گا،بسا اوقات  دنیا میں بھی اس کی جزا  ملتی ہے۔آئیے! اس سے مُتَعَلِّق ایک حکایت سنئے، چنانچہ

ہاتھوں ہاتھ صدقے کی برکت ظاہر ہوگئی !

امیر اہلسنت،بانیِ دعوتِ اسلامی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ   اپنی مایہ ناز تصنیف”فیضانِ سُنَّت “جلد اوّل کے صفحہ نمبر513 پرنقل کرتے ہیں:چنانچہ اپنے دَور کے اَبدال حضرت سَیِّدُنا ابو جعفر بن خطّاب رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: میرے دروازے پر ایک سائل (یعنی مانگنے والے)نے صَدا لگائی، میں نے زوجہ محترمہ سے پُوچھا: تمہارے پاس کچھ ہے؟ جواب مِلا: چار(4) انڈے ہیں۔ میں نے کہا: سائل کو دے دو۔ اُنہوں نے تعمیل کی۔ سائل انڈے پاکر چلا گیا۔ ابھی تھوڑی دیر گُزری تھی کہ میرے پاس ایک دوست نے انڈوں سے بھری ہوئی