Book Name:Fazail e Sadqat

لَنْ  تَنَالُوا  الْبِرَّ  حَتّٰى  تُنْفِقُوْا  مِمَّا  تُحِبُّوْنَ  ﱟ  وَ  مَا  تُنْفِقُوْا  مِنْ  شَیْءٍ  فَاِنَّ  اللّٰهَ  بِهٖ  عَلِیْمٌ(۹۲)

(پ۴،اٰلِ عمران:۹۲)

 تَرْجَمَۂ کنز الایمان:تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خَرچ کرو اور تم جو کچھ خَرچ کرو اللہ  کو معلوم ہے۔

 اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ صراطُ الجِنان میں ہے  کہ اس آیت میں بھلائی سے مُراد تقویٰ اور فرمانبرداری ہے اور خرچ کرنے کے بارے میں حضرت عبداللہ  بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما  نے فرمایا کہ’’ یہاں خرچ کرنے میں واجب اور نفلی تمام صدقات داخل ہیں۔ امام حسن بصری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے فرمایا: جو مال مسلمانوں کو محبوب ہو، اُسے رِضائے الٰہی کے لیے خرچ کرنے والا اس آیت کی فضیلت میں داخل ہے خواہ وہ ایک کھجور ہی ہو۔(تفسیرِخازن،پ۴، اٰل عمران،۱/۲۷۲)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس آیتِ مبارکہ پر عمل کرنے والے ہمارے بزرگانِ دِین کا جذبہ مرحبا !  آئیے! اس کے  مُتَعَلِّق  بزرگوں کے واقعات سنئے اور راہِ خدا میں اپنی پیاری چیزصدقہ کرنے کا جذبہ پیدا کیجئے ۔چنانچہ

 پسندیدہ باغ راہِ خُدا میں دے دیا

          (1)حضرت سَیِّدُناابو طلحہ انصاریرَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُ مدینے میں بڑے مالدار تھے، انہیں اپنے اموال میںبَیْرُ حَاءنامی ایک باغ بہت پسند تھا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہِ رسالت میں کھڑے ہو کر عرض کی:مجھے اپنے اموال میں سےبَیْرُ حَاءباغ سب سےپیاراہے،میں اسی کو راہِ خدا میں صدقہ کرتا ہوں۔حضورِاقدسصَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےاِس پرخوشی کااظہارفرمایااورپھرحضرت ابوطلحہرَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُنےسَرورِکائنات کےاشارےپروہ باغ اپنےرشتےداروں میں تقسیم کردیا۔ (بخاری ،کتاب الزکاۃ ،باب الزکاۃ علی الاقارب،۱/۴۹۳حديث:۱۴۶۱ملخصاً)