Book Name:Ramadan Ko Khushamdeed kehiye

انداز میں تحریری فتوے بھی شَامل ہوتے ہیں ۔آئیے!مئی2017 کے ماہنامہ فیضانِ مدینہ صفحہ نمبر54 پر گرمیوں کے روزوں کے حوالے سے  ایک معلوماتی فتویٰ سنتے ہیں ۔

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام  اس بارے میں کہ رمضان المبارک موسم گرما میں آرہا ہے، کیا سالانہ امتحانات کی وجہ سے طلبا کا رمضان کے فرض روزے قضا کرنا جائز ہے؟ نیز جو والدین بچوں کے اس فعل سے راضی ہوں یا خود روزے چھڑوائیں ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

ہر عاقل و بالغ مسلمان پر رمضان کا روزہ فرض ہے،بِلا عذرِ شرعی اس کا چھوڑنا گناہ ہے اورسالانہ امتحانات یا گرمی شرعاً فرض روزہ چھوڑنے کا قابلِ قبول عذر نہیں ہیں لہٰذا بالغ طلبا تو بیان کردہ اعذار کی بنا پر فرض روزہ چھوڑنے پر گنہگار ہوں گے ہی ان کے والدین بھی اگر بِلا عذرِ شرعی روزہ چھڑوائیں گے یا چھوڑنے پر باوجودِ قدرت پوچھ گچھ نہ کریں گے تو وہ بھی گناہگار  ہوں گے۔

طالبِ علم کے نابالغ ہونے کی صورت میں اگرچہ اس  پر روزہ فرض نہیں ہے اور بے عذر چھوڑے بھی تو گنہگار نہ ہوگا لیکن جب سات(7) سال کے بچے کو روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو والدین پر لازم ہے کہ اسے روزہ کا حکم دیں، سات(7) سال یا اس سے بڑے نابالغ بچے کو والدین اسی وقت روزہ چھڑوا سکتے ہیں جب کہ روزہ کی وجہ سے اسےضرر (نُقصان)کااندیشہ ہو ورنہ بلا عُذرِ شرعی چھڑائیں گے یا اس کے چھوڑنے پر  خاموش رہیں گے تو واجب ترک کرنے کی بنا پر گنہگار ہوں گے۔وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم (ماہنامہ فیضانِ مدینہ،مئی۲۰۱۷ء،ص۵۴)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                       صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! رمضان المبارک وہ عظیم مہینا ہے کہ جس میں قرآنِ کریم کا