Book Name:Faizan-e-Madani Inamaat

کوشش کرےاورجوکام اُخْرَوی اِعتبار سے نَفْعْ بَخْش نظر آئیں اُن میں بہتری کے لئے اِقْدامات کرے۔ اِسْتِقامت کے ساتھ فکرِ مدینہ کرنے سے خُوب خُوب برکتیں حاصل ہوتی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ بُزرگانِ دین نہایت اِسْتِقامت کے ساتھ فکرِ مدینہ (اپنے اَعْمال کا مُحاسَبہ) کرتے تھے اور اس سے کسی صُورت بھی  غفلت اِخْتیار نہ کرتے تھے ،چنانچہ

سیدُنافاروقِ اعظم کی فکرِ مدینہ

حضرتِ سَیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ(اپنامحاسبہ فرمایا کرتے)رات کے وقت اپنے پاؤں پر دُرَّہ (کَوڑا)مار کر فرماتے: بتا! آج تُو نے’’کیا عمل‘‘کیا؟۔(احیاء العلوم،۵/۳۵۸ملخصاً)

ہر دم فکر ِ مدینہ

حضرت سَیِّدُنا حَسَن بَصْری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُچالیس (40)برس تک نہیں ہنسے۔راوی کا بیان ہے کہ میں جب بھی ان کو بیٹھے ہوئے دیکھتا تو ایسا لگتا جیسے کوئی قیدی ہے،جسے گردن اُڑانے کے لئے لایا گیا ہے ،جب آپ گُفتگو فرماتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ آخرت کا مُشاہدہ فرمارہے ہیں اور اسے دیکھ دیکھ کر خبر دے رہے ہیں اور جب خاموش ہوتے تو یہ عالم ہوتا گویا اُن کی آنکھوں کے سامنے آگ بھڑک رہی ہے ۔ جب آپ سے اس قدرخوف زَدہ رہنے سے متعلق عرض کی گئی تو آپ نے فرمایا :میں اس بات سے بے خوف نہیں ہوں کہ اللہعَزَّ  وَجَلَّ  میرے بعض ناپسندیدہ اَعْمال پر مطلع ہوکر مجھ سے ناراض ہوجائے اور ارشاد فرمادے:”جا!میں تجھے نہیں بَخْشتا“(تو)اس صُورت میں میرے تمام اَعْمال ضائع ہوجائیں گے۔([1])

نَفْس کے مُحاسَبہ کا انوکھاطریقہ


 

 



[1]احیاءالعلوم  ،۴/۵۵۶-۵۵۵