Book Name:Faizan-e-Madani Inamaat

کرتے تھے تو ہم گُناہ گاروں کو فکرِ مدینہ کرنے کی کس قدر ضرورت ہے۔فکرِ مدینہ کرنے کی اَہمیَّت اور نہ کرنے کا نُقْصان کیاہوتاہے  یہ اِس مثال سے سمجھئے!جس طرح دُنیاوی کاروبار سے تَعَلُّق رکھنے والا کوئی بھی شخص اسی وقت کامیاب  تاجر بن سکتا ہے، جب وہ اپنے خرچ کیے ہوئے مال سے کئی گُنا زیادہ نفع کمانے میں کامیاب ہوجائے اور اس کا اَصَل سرمایہ بھی مَحْفُوظ رہے ۔ اِس مَقْصَد کے حُصُول کے لئے وہ اپنے کاروبار (Business) كا روزانہ ، ماہانہ اور سالانہ حساب کتاب کرتا ہے،پھر اُس پر مختلف پہلوؤں سے نہ صرف زبانی غور و فِکْر کرتا ہے بلکہ اُس کوتحریری طور پر محفوظ رکھنے  کی کوشش کرتا ہے،جہاں کسی قسم کی خامی نظر آئے، اُسے دُرُسْت کرتا ہے اور جوچیز نفع کے حُصُول میں رُکاوٹ نظر آتی ہے اس کو دُور کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے کاروباری مُعامَلات کا مُحاسَبہ نہ کرے تو اُسے نفع حاصل ہونا تو درکِنار ،اُلٹا نُقْصان کا سامنابھی ہوسکتا ہےاور اگر اس نُقْصان کے بعد بھی وہ ”خواب ِ خرگوش“(یعنی غفلت کی گہری نیند)سے بیدار نہ ہوتو ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ اُس کا اَصَل سرمایہ بھی باقی نہیں رہتا اور وہ کوڑی کوڑی کا مُحتاج ہوجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جو شخص ”کاروبارِ آخرت“میں نفع کمانے کا آرزُو مَنْد ہو ،اُسے بھی چاہئے  کہ اپنے کئے گئے اَعْمال پر غور کرے ، جو اَعْمال اُس کو نفع دِلوانے میں مُعاون ثابت ہوں، اُن کو مزید بہتر کرے اور جو کام اِس نفع کے حُصُول میں رُکاوٹ بن رہے ہوں، اُنہیں چھوڑ دے،جو شخص اس طرح اپنا اِحْتِساب جاری رکھے گا،وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی توفیق سےکامیابی سے ہمکِنار ہو گا اور بطورِ نفع اِنْ شَآءَاللہعَزَّ  وَجَلَّ اُسے جنّت  میں داخلہ نصیب ہوگا اور اگر ایسا کرنے کی بجائے ”خواب ِ غفلت “  کا شکارہوجائے تو وہ خسارے میں رہے گا ،جس کا نتیجہ جہنّم میں داخلے کی صُورت میں سامنے آسکتا ہے۔(وَالْعِیاذُ بِاللہ عَزَّ  وَجَلَّ )

شیخ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  نے آسان اور بہتر انداز میں فکر ِمدینہ(یعنی اپنا محاسبہ) کرنے کےبارے