Book Name:Faizan-e-Madani Inamaat

     حضرت سَیِّدُنا اِبْراھِیْم تیمیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے یہ تصوُّر باندھا کہ میں جنّت میں ہوں ، وہاں کے پھل کھا رہاہوں ، اُس کی نہروں سے مشروب پی رہا ہوں اور حُوروں سے مُلاقات کر رہا ہوں ،اِس کے بعد میں نے یہ خیال جمایا کہ میں جَہَنَّم میں ہوں،آگ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوں ،تُھوہڑ(کانٹے دار درخت ) کھا رہا ہوں اور دَوزَخْیوں کا پِیْپ پی رہا ہوں ۔پھر میں نے اپنے نَفْس سے پوچھا :تجھے ان دونوں میں سے کون سی چیز پسند ہے؟ نَفْس بولا:میرا ارادہ ہے  کہ دُنیا میں جا کر نیک عمل کرکے آؤں،تب میں نے اسے کہا کہ فی الحال تجھے مہلت ملی ہوئی ہے، لہٰذا خوب نیک اعمال کرلے ۔([1])

اللہ تبارک وتعالیٰ ان نیک ہستیوں کے صدقے میں ہمیں نیک بنا دے اور کاش!ہم سُدھر جائیں۔

اِلٰہی رحم فرما میں سُدھرنا چاہتا ہوں اب

نبی کا تجھ کو صدقہ میں سُدھرنا چاہتا ہوں اب

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے کہ ہمارے بُزرگانِ دِین میں فکرِ مدینہ (مُحاسبہ کرنے)کا جذبہ کس قدر کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا ،اُن مُبارک ہستیوں کے نزدیک فکرِ مدینہ(مُحاسبہ کرنے) کی کس قدر اہمیَّت تھی کہ ہروَقْت اپنے اَعْمال کے بارے میں فکرمند رہتے کہ نہ جانے ہمارے یہ اَعْمالاللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں مَقْبُول ہو کر ہماری مَغْفرت کا ذریعہ بنیں گے یا مَردُود ہو کر ہماری ہلاکت کا سبب ثابِت ہوں گے۔ذرا سوچئے !جب یہ مَقْبُولانِ بارگاہ اس قدر اِسْتِقامت کے ساتھ فکر ِمدینہ


 



[1]مکاشفۃ القلوب ، ص ۵۴۶ملخصاً