Book Name:Bandon kay Huquq

اوراس کی اَدائیگی میں کوتاہی سے کام لیا تو دُنیا وآخرت دونوں ہی برباد ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا کسی بھی ذی شعور شَخْص  سے اس کی اَہمیَّت ڈَھکی چُھپی  نہیں ۔ بندوں کے حقوق کاخیال رکھنے،بندوں کے حقوق اَدا کرنے کی عادت کس طرح بنائی جائے؟ آئیے! اس کے چند طریقے  بھی سُنتے ہیں۔

حقوق کا علم حاصل کیجئے!

(1)…سب سے پہلے بندوں کے حقوق کا علم حاصل کرنا ہوگا، کسی بھی چیز کی صحیح معلومات کے بغیر اس پر عمل پیرا ہونا تقریباً ناممکن  ہوتاہے، افسوس! ہمارے مُعاشرے کی اکثریت چونکہ بندوں کے حقوق سے ہی ناواقف ہے، تو ان کی اَدائیگی سے بھی کوسوں دُور ہے۔ بندوں کے حقوق کے مُتَعَلِّق تفصیلی معلومات کے لیےمکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کتب’’اِحْیاءُالعُلُوم جلد 2صفحہ 626تا 789‘‘ ’’والدین، زَوجین اور اَساتذہ کے حقوق‘‘،امیراہلسنّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ   کا رسالہ’’ظُلم کا اَنْجام ‘‘اورمکتبۃ المدینہ کا رِسالہ، تذکرہ امیرِ اہلسنّت(قسط6)"حقوق العباد کی احتیاطیں"کا مُطالَعہ بہت مُفید رہے گا۔

ہمیشہ مثبت سوچئے!

(2)کسی کے بارے میں مَنْفی سوچ کو دِل و دِماغ میں جگہ دینے اور اس کے ناپسندیدہ اَوصاف یاد ر کرنے کے بجائے مثبت سوچ قائم کیجئےاور اس کے اچھے اوصاف کو یادرکھئے۔

منقول ہے کہ ایک شَخْص اپنی بیوی کی شکایت کرنے کے لئے حَضرتِ سَیِّدُنا عمرِ فارُوقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس پہنچا، دروازے پر پہنچ کر اس نے اَمِیْرُالمؤمنین کی زوجہ کی بلند آواز سےگفتگو سُنی، وہ یہ کہتے ہوئے لوٹ گیا کہ اَمِیْرُ المؤمنین تو خوداس مسئلے کا شکار ہیں، بعد میں اَمِیْرُالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اسے بُلوا کر آنے (اور پھرلوٹ جانے)کی وجہ پوچھی، اس نے مکمل واقعہ عرض کیا توحضرت سَیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا:بیوی کے چند حُقُوق کے سبب میں اس سے دَرْگُزر کرتا ہوں،(1)