Book Name:Shaban ul Muazzam main nafil ibadaat

ایک شخص نے دربارِ اقدس(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) میں ڈکارلی ( تو) فرمایا : کُفَّ عَنَّا جُشَاءَکَ فَاِنَّ اَکْثَرَ ھُمْ شِبَعًا فِی الدُّنْیَا اَطۡوَلُہُمۡ جُوْعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (یعنی)ہم سے اپنی ڈکار دُور رکھ کہ دُنیا میں جو زیادہ مُدّت تک پیٹ بھرتے تھے وہ قیامت کے دن زیادہ مُدّت تک بُھوکے رہیں گے۔ (1)

1.   جماہی میں آواز نکلنا تو کہیں نہ چاہیے اگر چہ غیرِ مسجد میں تنہا ہو کہ وہ شیطان کا قہقہہ ہے۔ جماہی جب آئے حتّی الامکان منہ بندر کھو، مُنہ کھولنے سے شیطان مُنہ میں تُھوک دیتا ہے۔ یُوں نہ رُکے تو اوپر کے دانتوں سے نِیچے کا ہونٹ دبا لو اوریُوں بھی نہ رُکے تو حتی الامکان (منہ)کم کھولو اور اُلٹا ہاتھ اُلٹی طرف سے منہ پر رکھ لو یونہی نماز میں بھی مگر حالتِ قیام میں سیدھا ہاتھ اُلٹی طرف سے رکھو کہ اُلٹا ہاتھ رکھنے میں دونوں ہاتھ اپنی مسنون جگہ سے بدلیں گے اور سیدھا رکھنے میں صرف یہ ہی بضرورت بدلا، اُلٹا اپنی محلِ سُنّت پر ثابت رہا۔جماہی روکنے کا ایک مجرَّب طریقہ یہ ہے کہ جب جماہی آنے کو ہو فوراً تصور کرے کہ حضراتِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کو (جماہی)کبھی نہ آئی۔

2.   مسجد میں دُنیا کی کوئی بات نہ کی جائے۔ ہاں! اگر کوئی دِینی بات کسی سے کہنا ہو تو قریب جاکر آہستہ سے کہنا چاہیے نہ یہ کہ ایک صاحب مسجد میں کھڑے ہوئے ،راہگیر سے جو سڑک پر کھڑا ہوا ہے ،چِلاّ کر باتیں کر رہے ہیں یاکوئی باہر سے پُکار رہاہے اور یہ اس کاجواب بلند آواز سے دے رہے ہیں۔

3.   تَمَسْخُـر(یعنی مذاق مسخری کرنا)ویسے ہی ممنوع اور مسجد میں سخت ناجائز یا ہنسنا منع ہے۔قبر میں تاریکی لاتا ہے۔ (2) ہاں! موقع سے تبسم میں حرج نہیں۔فرشِ مسجد میں کوئی شے پھینکی نہ جائے بلکہ آہستہ سے رکھ دی جائے۔موسمِ گرمامیں لوگ پنکھا جھلتے جھلتے پھینک دیتے ہیں یالکڑی چھتری وغیر ہ رکھتے وقت دُور سے چھوڑ دِیا کرتے ہیں، اس کی ممانعت ہے غرض مسجد کا احترام ہر مسلمان پر فرض ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ترمذی، کتاب صفة القیامةالخ، باب-۳۷،۴/۲۱۷، حدیث:۲۴۸۶

2 فردوس الاخبار، ۲/۴۱، حدیث:۳۷۰۶