Book Name:Aala Hazrat ka Ishq e rasool

کے لئے ماہِرِفَن، عالِمِ دین ہونا چاہئے، ورنہ عالِم نہ ہونے کی صورت میں رَدیف، قافِیہ اوربَحر(یعنی شعر کے  وَزَن)وغیرہ کو نِبھانے کیلئے خلافِ شان اَلفاظ ترتیب پا جانے کا خَدشہ رہتا ہے۔عوامُ النّاس (عام لوگوں )کو شاعِری کا شوق چَرانا مناسِب نہیں کہ نَثر کے مُقابلے میں نَظَم میں کُفرِیّات کے صُدُور(یعنی وُقوع)کازیادہ اندیشہ رہتا ہے ۔اگر شرعی اَغلاط سے کلام محفوظ رہ بھی گیا تو فُضولیات سے بچنے کا ذِہن بہت  کم لوگوں کا ہوتا ہے۔ جی ہاں!آج کل جس طرح عام گفتگو میں فُضول اَلفاظ کی بھر مار پائی جاتی ہے،اِسی طرح بیان اورنعتیہ کلام میں بھی ہوتا ہے۔([1])لہٰذا اَدَب کاتقاضا تو یہی ہے کہ فَنِّ نعت سے ناواقِف اَفراد خُود سےنعتیں لکھنے کا شوق ہرگز نہ پالیں کہ اِسی میں دونوں جہان کی بھلائی ہے۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                         صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ جب تک زندہ رہے،عِشْقِ رسول کے طُفیل بارگاہِ مُصْطَفٰے  سے حاصل ہونے والے اَنوار و تَجَلِّیات سے خُود بھی فیضیاب ہوتے رہے اور مخلوقِ خُدا کو بھی فیضیاب کرتے رہے نیز رحمتِ عالَم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عِنایتوں کا سلسلہ صرف آپ کی حیات تک ہی مَحْدُود نہ رہا بلکہ بعدِ وِصال بھی آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ پر لُطف و رِضوان کی بارشیں ہوتی رہیں۔ چُنانچہ

دربارِ رسالت میں انتظار

پچّیس(25)صَفَر المُظَفَّرکو بَیْتُ المقدَّس میں ایک شامی بُزُرگ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے خواب میں اپنے آپ کو دربارِ رسالت میں پایا ۔تمام صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  اور اَولیائے عِظام، دربار میں حاضِر تھے، لیکن مجلس میں خاموشی طاری تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی آنے والے کا اِنتظار ہے۔شامی بُزُرگ

 



[1]کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،ص۲۳۲