Book Name:Aala Hazrat ka Ishq e rasool

جس میں نہریں ہیں شِیْر و شَکَر کی رَواں          اُس گلے کی نَضارَت پہ لاکھوں سلام

حَجَرِ اَسْوَدِ کعبۂ جان و دل                        یعنی مُہرِ نُبوّت پہ لاکھوں سلام

کُل جہاں مِلک اور جَو کی روٹی غِذا                اس شِکَم کی قناعت پہ لاکھوں سلام

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                               صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ نعتیہ اَشعار تحریر کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں،نہ ہی ہر کسی کو اس کی اجازت ہے،نعتیہ شاعری کے لئے فَنِّ شاعری کے اُصولوں کے ساتھ ساتھ علمِ دین کی دولت اور عُلمائے حق کی صحبت وغیرہ کئی چیزیں ضروری ہیں،بہت سے  ایسے شاعر جن کا دنیوی شاعری میں کوئی ثانی نہیں، مگر جب انہوں نے نعتیہ شاعری کے میدان میں قسمت آزمائی تو علمِ دین اور علمائے دِین کی صحبت سے مَحْروم ہونے کی وجہ سے ایسی ایسی ٹھوکریں کھائیں کہ الامان و الحفیظ۔بہرحال عافیت اسی میں ہے کہ عام لوگ نعت شریف لکھنے کا خیال اپنے دل سے نکال دیں، کیونکہ یہ آسان کام نہیں ۔

قربان جائیے!اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے کمالِ احتیاط پر کہ نعت لکھنے کے کامل اَہل ہونے اور فنِّ شاعری کے اُصولوں میں مہارت حاصل ہونے کے باوُجود نعت شریف لکھنے کو ایک مُشکل کام کہا کرتے تھے چُنانچہ خُود ہی فرماتے ہیں:حقیقۃً نعت شریف لکھنا نہایت مُشکل ہے، جس کو لو گ آسان سمجھتے ہیں، اِس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔ ([1])

شیخِ طریقت امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  اپنی کتاب ”کُفریہ کلِمات کے بارے میں سوال جواب“ کے صفحہ 232 پر نعتیہ شاعری کرنے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: کہ یہ سُنّتِ صَحابہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  ہے یعنی بعض صحابہ مَثَلاً حسّان بن ثابِت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت سیِّدُنا زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  وَغَیْرَھُما سے نعتیہ اَشْعار لکھنا ثابت ہے۔ تاہم یہ ذِہن میں رہے کہ نعت شریف لکھنا نہایت مُشکِل فَن ہے، اِس

 



[1]ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص۲۲۷