Book Name:Aala Hazrat ka Ishq e rasool

چُنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سُوار ہوگئے اور چار(4)مزدور،پالکی کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر چل دیئے۔ابھی تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ یَکایَک،امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے پالکی میں سے آواز دی:’’پالکی روک دیجئے‘‘ پالکی رُک گئی۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فوراً باہَر تشریف لائے اور بَھرّائی ہوئی آواز میں مزدُوروں سے فرمایا: سچ سچ بتایئے آپ میں سیِّدزادہ کون ہے؟ کیونکہ میرا ذَوقِ ایمان، سرورِ دوجہان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خُوشبو محسوس کررہا ہے، ایک مزدُور نے آگے بڑ ھ کر عرْض کی: حُضور ! میں سیِّدہوں۔ ابھی اس کی بات مکمل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ عالَمِ اسلام کےپیشوا اور اپنے وقت کے عظیم مجدِّد نے اپنا عِمامہ شریف اُس سیِّد زادے کے قدموں میں رکھ دِیا۔ امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی آنکھوں سے ٹَپ ٹَپ آنسو گِررہے ہیں اور ہاتھ جوڑ کر اِلْتِجا کررہے ہیں:مُعَزَّز شہزادے! میری گُستاخی مُعاف کردیجئے، بے خَیالی میں مُجھ سے بُھول ہوگئی، ہائے غَضَب ہو گیا ! جن کی نَعْلِ پاک میرے سَرکا تاجِ عزّت ہے، اُن کے کاندھے(کندھے) پر میں نے سُواری کی، اگر بروزِ قِیامت تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پُوچھ لِیا کہ احمد رضا! کیا میرے فرزند کا دَوشِ نازنیں(یعنی نازُک کندھا) اِس لئے تھا کہ وہ تیری سُواری کا بوجھ اُٹھائے ؟تو میں کیا جواب دوں گا! اُس وَقت میدانِ محشر میں میرے ناموسِ عِشق کی کتنی زبردست رُسوائی ہوگی۔ کئی بار زَبان سے مُعاف کردینے کا اِقْرار کروالینے کے بعد امامِ اہلسنّترَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے آخری اِلْتِجائے شوق پیش کی:محترم شہزادے! اس لاشُعُوری میں ہونے والی خَطا کا  کَفّارہ جبھی اَدا ہوگا کہ اب آپ پالکی میں سُوار ہوں گے اور میں پالکی کو کاندھا(کندھا) دُوں گا۔ اس اِلتجا پر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بعض کی تو چیخیں بھی بُلند ہوگئیں۔ ہزار اِنْکار کے بعد آخِر کار مزدُور شہزادے کو پالکی میں سُوار ہونا ہی پڑا۔یہ مَنْظَر کس قَدَر دل سوز ہے،اہلسنّت کا جلیلُ القَدر امام مزدُوروں میں شامِل ہو کر اپنی خُداداد علمیّت اور عالمگیرشُہرت کا سارا اِعزاز، خُوشنُودیِ محبوب