Book Name:Barkat e Zakat

ہمیں مال ودولت اور دِیگرتمام نعمتوں سے نَوَازنے والی ہمارے ربّعَزَّ  وَجَلَّ ہی کی پیاری ذاتِ پاک ہےاور زکوٰۃ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کا حق ہے ، جو ہمارے ہی غُرَبَاء پر خَرچ کیا جاتاہے۔

1.    ربّ عَزَّ  وَجَلَّچاہتاتو سب کو مال ودولت عطا فرماکر غنی کردیتا، لیکن اُس کی مَشِیَّتْ ہے کہ اُس نے اپنے ہی بندوں میں بعضوں کو اَمِیْر اور دولت مندکیا اور بعضوں کو غَرِیْب رکھااور اَمِیْروں یعنی صَاحبِ نصاب پر زکوٰۃ کی ادائیگی لازِم کردی تاکہ اِس سے اَمِیْروں اور غَرِیبوں میں پیار،مَحَبَّت اور باہمی اِمداد کا جذبہ پیدا ہو اور اللہعَزَّوَجَلَّ کی نعمت کو سب مل بانٹ کر کھائیں اور اُس کا شُکْرادا کریں۔

2.    شَرِیعت نے زکوٰۃ فرض کرکے کوئی اَنہونِی چیز فرض نہیں کی بلکہ اگر ہم اپنے اَطْرَاف میں غوروفکر کریں تو زکوٰۃ کی حقیقت ہر جگہ مَوْجُود ہے۔ جیسے کہ پھَلوں کا گُودَا اِنسان کے لیے ہے مگر چِھلکا جانوروں کا حق ہے۔گَنْدُم میں پھل(یعنی بِیج)ہمارا حصّہ مگر بُھوسہ جانوروں کا ، گَنْدُم میں بھی آٹا ہمارا ہے تو بُھوسی جانوروں کی۔ہمارے جِسْم میں بال اور ناخُن وغیرہ کا حَدِّ شَرعِی سے بڑھنے کی صُورت میں عَلَیْحَدَہ کرنا ضروری ہے کہ یہ سب جِسْم کی زکوٰۃ یعنی اِضَافی چیزمَیل ہیں۔بیماری تندرُستی کی زکوٰۃ، مُصیبت راحَت کی زکوٰۃ ، نمازیں دُنیاوی کاروبار کی گویا زکوٰۃ ہیں۔

3.    اگر ہر وہ شخص جس پر زکوٰۃ فرض ہے، زکوٰۃ کی ادائیگی کا اِلْتِزام(یعنی اپنے اوپر لازم ) کرلے تو مسلمان کبھی دوسروں کے محتاج نہ ہوں گے۔ مسلمانوں کی ضرورتیں مسلمانوں سے ہی پوری ہوجائیں گی اور کسی کو بِھیک مانگنے کی بھی حاجت نہ ہوگی۔([1])  

بہر حال دولت کو تجوریوں میں بند (یعنی بینک میں جمع) کرنے کے بجائے، زکوٰۃ  و صَدَقات کی صُورت میں راہِ خُدا میں  خرچ کریں، ورنہ یقین کیجئے کہ زکوٰۃ  ادا نہ کرنا،  آخرت کے دردناک عذاب اور دُنیا میں مَعَاشی بدحالی کا سبب بن سکتا ہے۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنے کے بے شُمار نقصانات ہیں اُن میں سے چند یہ ہیں ۔


 

 



[1]…رسائل نعیمیہ، ص۲۹۸، بتصرف