Book Name:Siddiq e Akbar ka Khauf e Khuda

دوستوں کا ساتھ مل گیا ’’بُرے کی صحبت انسان کو بُرا بنا دیتی ہے ‘‘کے مِصْدَاق میں بھی مختلف برائیوں کا شکار ہو گیا۔ اسکول سے بھاگ جانا، چوری چکاری، مار پٹائی ، لڑائی جھگڑے کرنا میرے معمولاتِ زندگی کا حصہ تھے۔ گناہوں کا یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور آخرکار میں نے اپنے دوستوں سمیت منشیات فروشوں کے گروہ میں شمولیّت اختیار کر لی۔ والدین مجھے سمجھاتے مگر میرے نزدیک ان کی باتوں کی کوئی اَہَمِّیَّت نہ تھی۔ والدین میرے اس رَوَیِّے سے پہلے ہی پریشان تھے کہ ایک دن میں نے ایک جگہ شادی کا مطالبہ کر دیا۔ گھر والوں نے یہ جان کر کہ شاید سُدھر جائے میری پسند کی شادی کروا دی ،مگر میں بھلا کہاں سُدھرنے والا تھا۔ اب تو ایک قدم اور آگے بڑھا اور چرس و شراب نوشی کے ساتھ ساتھ ڈکیتیاں مارنا شروع کردِیں۔ والدین کی نافرمانی اور انہیں ستانا تو میرے لئے کوئی نیا کام نہ تھا۔ ماں باپ مجھے مسلسل سمجھاتے ، جب کبھی بُرے دوستوں کو چھوڑنے کا کہتے تو میں اپنے والدین کو چھوڑ کر دوستوں کے پاس ڈیرا ڈال لیتا اور ہفتہ ہفتہ گھر کا رُخ نہ کرتا۔ دن بدن میرے گناہوں کا سلسلہ بڑھتا گیا،اب میں ناجائز اسلحہ لئے اکڑتا پھرتا ، بدکاری کر کے ’’کالا منہ‘‘ کرتا۔ پہلے کیا گناہ کم تھے جو  اب چرس، شراب کے ساتھ پاوڈر پینا ، نیند آور گولیاں کھانا بھی شروع کر دیں۔ گھر والے سمجھانے کی کوشش کرتے تو ’’اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کے مصداق ان سے لڑنا شروع کر دیتا، ناراض ہو جاتا۔ رشتے دار ، گلی محلے والے الغرض ہر ایک میری حرکتوں کے باعث مجھ سے بیزار تھا۔ کئی بار والد صاحب نے ڈنڈو ں سے مارا بھی مگر میرے کان پرجُوں تک نہ رینگتی۔ میری والدہ مجھ سے ایسی تنگ آ چکی تھی کہ بارہا کہتی: کاش تُو پیدا نہ ہوا ہوتا۔ کوئی کہتا: کاش تجھے موت آجائے تاکہ ہمیں سُکھ کا سانس نصیب ہو۔ شادی کے نو(9) سال بعداللہعَزَّ  وَجَلَّ نے مجھے بیٹی کی نعمت عطا فرمائی ، والدین کو ایک آس لگی کہ شاید اب سُدھر جائے کہ بیٹی