Book Name:Siddiq e Akbar ka Khauf e Khuda

رات گزاری ؟ کیا کبھی ربّ تعالیٰ کی ناراضی کا سوچ کر ہمیں گناہوں سے وَحْشَت محسوس ہوئی ؟ کیا کبھی اپنے مالک عَزَّ  وَجَلَّ کی رِضَا کو پا لینے کی خواہش سے ہمارے دل کی دُنیا زَیْروزَبَر ہوئی؟

     اگر جواب ہاں میں ہو تو سوچئے کہ اگر ہم نے ان کَیْفِیَّات کو محسوس بھی کیا تو کیا خوفِ خدا عَزَّ  وَجَلَّ کے عملی تقاضوں پر عمل پَیْرَا ہونے کی سَعَادَت حاصل کی یا مَحض ان کَیْفِیَّات کے دل پر طاری ہونے سے مطمئن ہو گئے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں میں سے ہیں اور مختلف گناہوں سے اپنا نامَۂ اَعمال سِیَاہ کرنے کا عمل بَدَسْتُورجاری رکھا۔اور اگران سُوَالات کے جوابات نفی میں آئیں  تو غور کیجئے، کہیں ایسا تو نہیں کہ گناہوں کی کثرت کے نتیجے میں ہمارا دل پتھر کی طرح سخت ہوچکاہو،جس کی وجہ سے ہم ان کَیْفِیَّات سے اب تک محروم ہوں؟اگر واقعی ایسا ہے تومقامِ تَشْوِیْش ہے کہ ہماری قساوتِ قلبی (یعنی دل کی سختی)اوراس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غفلت،ناراضیٔ ربِّ قہار جَلَّ جَلَالُہٗ کی صورت میں کہیں ہمیں جہنّم کی گہرائیوں میں نہ گرا دے ۔ (وَالْعِیَاذُ بِاللہ )

قلب پتھر سے بھی سختی میں بڑھا جاتا ہے

دل پہ اِک خول سیاہی کا چڑھا جاتا ہے

خوف ِخدا کے سبب شدید تکلیف

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمارے،صِدِّیْقِ اَکْبَر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تو ایسے رَقِیْقُ الْـقَلْبْ (یعنی نرم دل والے)تھے  کہ جب آپ کے سامنےتلاوتِ قرآن کی جاتی تو آپ پر لَرْزَہ طاری ہوجاتا، چنانچہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہی سے روایت ہے :فرماتے ہیں کہ میں دو عالَم کے مالِک و مختار، مکّی مَدَنی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی بارگاہ میں موجود تھا کہ قرآن پاک کی یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی: