شانِ حبیب بزبانِ حبیب (قسط:05)

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

شانِ حبیب بزبانِ حبیب(قسط : 05)

* مولاناابوالحسن عطاری مدنی

ماہنامہ مئی 2021ء

گزشتہ سے پیوستہ

 شانِ راحت و رحمت :

(13)اَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ یعنی میں رحمت ہوں ، رب کا ہدیہ ہوں۔ [1]

یہ رحمتِ عالَم ہی کی شان ہے کہ ساری کائنات میں حکمِ الٰہی سے تصرف کا اختیار رکھنے والے ہیں لیکن پھر بھی صاف الفاظ میں فرماتے ہیں کہ میں تو تمہارے لئے رحمت ہوں ، تمہارے رب کی طرف سے ہدیہ ہوں۔ علمائے کرام نے “ رَحْمَةٌ “ اور “ مُهْدَاةٌ “ کو بھی آپ کے مبارک اسما و القابات میں شمار کیا ہے۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس کا بدل نہ دینا پڑے ، سبل الھدیٰ والرشاد میں ہے : “ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ کریم نے مجھے بندوں کے لئے ایسی رحمت بنا کر بھیجا ہے جس کا کوئی بدلہ نہیں مانگا جائے گا کیونکہ جب کوئی ہدیہ رحمت و شفقت کے طور پر بھیجا جائے تو اس سے عوض و بدلے کا ارادہ نہیں کیا جاتا۔ “ [2]

(14)اَنَا رَسُولُ الرَّحْمَةِ وَ رَسُولُ الرَّاحَةِ یعنی میں رحمت و راحت والا رسول ہوں۔ [3]

اس فرمانِ مبارک میں دو اسمائے شاہِ مدینہ کا بیان ہوا ہے : “ رَسُولُ الرَّحْمَةِ “ اور “ رَسُولُ الرَّاحَةِ “ ۔

یہاں اوّلاً اسمِ گرامی “ رَسُولُ الرَّاحَةِ “ کے بارے میں کچھ ملاحظہ کرتے ہیں۔ یوں تو راحت اور رحمت قریبُ المعنیٰ ہیں لیکن ان میں فرق بھی کیا جاتا ہے۔ راحت کو سکون ، آسانی ، سہولت ، دلی خوشی اور مشکلات سے رہائی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

ان میں سے کسی بھی مفہوم کی روشنی میں رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک ذات کو دیکھا جائے ، آپ ہر لحاظ سے کامل و اکمل ہیں ، آپ کی تشریف آوری ایک علاقہ ، قبیلہ ، شہر یا ملک نہیں بلکہ ساری کائنات کے لئے راحت ، سکون اور آسانی کا سبب بنی۔

آپ کی آمد سے توبہ آسان ہوگئی۔ گناہ کرنے والوں کے گناہ ان کے دروازوں پر نہیں لکھے جاتے۔ نماز کے لئے صرف عبادت خانوں ہی کی تخصیص نہ رہی بلکہ ہر پاک جگہ کو نماز کے لئے جائز قرار دیا گیا۔ چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر بڑے بڑے ثواب دئیے گئے۔ حج ، عمرہ ، صدقہ اور دیگر بڑے بڑے نیک اعمال کرنے کی استطاعت نہ رکھنے والوں کو چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر اِن اعمال کا اجر دئیے جانے کا فرمایا گیا۔ ایک بار “ سبحٰن اللہ “ کہنے پر جنّت میں درخت لگنے کی نوید سنائی گئی۔ ایک حرفِ قراٰنی کی قراءت پر دس نیکیوں کا مُژدہ ملا ، تین بار سُورۂ اِخلاص کی تلاوت پر پورے قراٰن کا ثواب ملنے کی خوشخبری ملی ، گناہ گاروں کو میدانِ حشر میں شفاعت کی امید نے دلاسا دیا ، غرض کہ بے شمار ایسے امور ہیں کہ جو رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی برکت سے ہمیں ملے اور وہ ہماری دلی راحت و سکون کا سبب ہیں۔

شانِ رحمت :

اسمِ گرامی “ رَسُولُ الرَّحْمَةِ “ کے معانی و مفاہیم اور اس کے مَظاہر بے شمار ہیں۔ مدنی آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی رسالت ہمارے لئے رحمت ، آپ کے اخلاق رحمت ، آپ کی ذات رحمت اور یہ سب ایسی رحمتیں ہیں کہ صرف چند لوگوں کے لئے نہیں ، کسی خاص جماعت یا گروہ کے لئے نہیں ، صرف مؤمنین کے لئے نہیں بلکہ سارے جہانوں کے لئے رحمتیں ہیں کیونکہ جس نے آپ کو رحمت بنایا خود اسی کا فرمان ہے : )وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ( ترجَمۂ کنزُالایمان : اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔ (پ17 ، الانبیآء : 107)   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک ذات اخلاقِ کریمہ کا ایسا مجموعہ ہے کہ کوئی نہایت نہیں ، آپ كی رحمت کا کوئی کنارہ نہیں ، آپ کی مبارک ذات میں پایا جانے والا ہر ہر وصفِ رحمت و شفقت و عظمت و رفعت بےانتہا ہے ، آپ اللہ کریم کی طرف سے ہمارے لئے ایسا ہدیہ و تحفہ و احسان و رحمت ہیں کہ 1400سال سے زائد گزر گئے ، ہر زمانے میں آپ کے اوصافِ رحمت و عظمت کو لوگوں نے ہر ہر رنگ و انداز سے بیان کیا لیکن آپ کی شان ہے کہ ہر بار جدا نظر آتی ہے ، رحمت کی برسات ہر بار الگ انداز سے برستی ہے ۔

رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شانِ رحمت کے بھی کیا کہنے! آپ نے معاشرے کے مظلوم ترین طبقہ غلاموں اور عورتوں کو ان کے حقوق دلوائے ، جن غلاموں کے ساتھ پاؤں کی جوتی سے بھی بدتر سلوک ہوتا تھا انہیں ، آقا کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کا مقام دیا ، غریبوں اور فقرا مسلمین کو دیگر سے پہلے جنّت میں جانے کا مژدہ سنایا ، گناہ گار اہلِ ایمان کو بروزِ قیامت شفاعت و سفارش کی نوید سنا کر ڈھارس بندھائی۔

 حضور نبیّ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک رحمت کے بیان کی بنیادی طور پر دو قسمیں کی جاسکتی ہیں : (1)رحمت و شفقت کی تعلیم(2)ذاتِ گرامی سے رحمت و شفقت کا ظہور۔

(1)رحمت و شفقت کی تعلیم :

رسولِ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے جہاں کائنات کی ہر مخلوق کے لئے اپنی رحمت کے دریا بہائے وہیں دوسروں کو بھی رحمت و شفقت کی تعلیم و ترغیب دی اور کثیر مواقع پر اس کی تکرار بھی فرمائی ، چنانچہ ایک موقع پر ارشاد فرمایا : اَلرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمٰنُ ، اِرْحَمُوا مَنْ فِي الاَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ رحم کرنے والو ں پر رحمٰن عَزَّوَجَلَّ رحم فرماتا ہے ، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان کی بادشاہت والا تم پر رحم فرمائے گا۔ [4]

صلۂ رحمی کے ذریعے رحمت و شفقت کے پھیلاؤ کی ترغیب کیسے پیارے انداز میں ارشاد فرمائی : اَلرَّحِمُ شُجْنَةٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ ، فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلَهُ اللَّہُ رشتہ داری رحمٰن سے تعلق رکھنے والی ایک شاخ ہے تو جو شخص اس کو ملائے گا اللہ کریم اس کو ملائے گا۔ [5]

بعض اوقات سرزنش کے انداز میں بھی رحمت و شفقت کی تلقین فرماتے جیسا کہ ایک اعرابی کو بچّوں کے ساتھ محبت و رحمت کا درس دیا۔ چنانچہ ایک مرتبہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے امام حَسَن  رضی اللہُ عنہ  کو بوسہ دیا ، اپنے سینے سے لگایا اور سُونگھنے لگے ، اس قَدَر شفقت و محبت دیکھ کر ایک شخص نے عرض کی : یَارسولَ اللہ! میرا بھی ایک بیٹا ہے جو اَب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہے ، مگر میں نے اسے کبھی نہیں چُوما۔ آپ نے ارشاد فرمایا : اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحمت نکال لی ہے تو اس میں میرا کیا قُصُور ہے۔ [6]

اسی طرح ایک شخص نے رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی حضرت امام حسن سے محبت و رحمت کو دیکھتے ہوئے کہا : اِنَّ لِيْ عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْهُمْ اَحَدًا فَنَظَرَ اِلَیْہِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ میرے دس بیٹے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چوما۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اُس کی طرف دیکھا اور فرمایا : “ جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ “ [7]

دوسری قسم “ ذاتِ گرامی سے رحمت و شفقت کا ظہور “ اگلے ماہ کے شمارے میں بیان کیا جائے گا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] مصنف ابن ابی شيبہ، 16/504، حدیث:32442

[2] سبل الھدیٰ والرشاد، 1/464

[3] الشفاء،1/231

[4] ترمذی، 3/371، حدیث:1931

[5] ترمذی، 3/371، حدیث:1931

[6] مستدرک للحاکم،4/161، حدیث:4846

[7] بخاری، 4/100، حدیث: 5997


Share

Articles

Comments


Security Code