قتل و غارت

دنیا کا سب سے پہلا قاتل قابیل ہے جس نےرشتے کے تنازعے میں اپنے بھائی حضرت سیّدنا ہابیل رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو قتل کردیا۔(مدارک التنزیل،ص282ملخصاً)ظلماً خون بہاتے ہی قابیل کا چہرہ سیاہ اور بَدصورت ہوگیا۔ حضرتِ سیّدنا آدم علیہ السَّلام نے شدید غَضَب کے عالَم میں (اپنے بیٹے) قابیل کو اپنی بارگاہ سے نکال دیا اور وہ عَدَن (یمن) کی طرف چلا گیا، وہاں شیطان کے ورغلانے پر آگ کی پُوجا کرنے لگا، قابیل جب بوڑھا ہوگیا تو اس کے نابینا بیٹے نے پتّھر مار کر اسے قتل کردیا، یوں یہ کفر و شرک کی حالت میں مارا گیا۔(روح البیان،ج2،ص382)

ہر قتل میں حصہ دار رسولِ نذیر، سِراجِ مُنیر صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: کوئی بھی شخص ناحق قتل ہوتا ہے تو اس قتل کا گناہ حضرتِ آدم (علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام)کے بیٹے(قابیل) کو ضَرور ملتا ہے کیونکہ اُسی نے سب سے پہلے قتل کا طریقہ رائج کیا۔(بخاری،ج2،ص413،حدیث:3335)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دنیا کے پہلے قتل سے لے کر اب تک  بے شمار  لوگ  طبعی موت کے بجائے قتل ہوکر دنیا سے رخصت ہوچکے مگر تاحال یہ سلسلہ رُکا نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تیزی آتی جارہی ہےاورنِت نئے طریقوں سے لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے، جس کا کوئی پیارا قتل ہوتا ہے اس پر جو گزرتی ہے، اسے کن کن مسائل کا سامنا ہوتا ہے! یہ حقیقتاً وہی سمجھ سکتا ہے۔

اسباب قتل(Murder) کے اسباب میں سے سب سے بڑا اور بنیادی سبب علمِ دِین کی کمی ہے، مزید وجوہات میں جائیداد کا لالچ،غیرت، گھریلو جھگڑے، جُرم چھپانے کی کوشش، شادی کیلئے رشتہ دینے سے مَنع کرنا،ناجائز تعلّقات کا شبہ،اِغوا برائے تاوان میں تاوان ملنے میں ناکامی، عشقِ مجازی، بغض و کینہ، خاندانی دشمنی وغیرہ شامل ہیں۔

چند خبریں ہمارے معاشرے کی عکّاسی کرنے والی چند منتخب خبریں ملاحظہ کیجئے: چنانچہ ٭بچوں کے جھگڑے پر فائرنگ کرکے محلے دار کو قتل کردیا ٭کتّے کو کھانا نہ ڈالنے پر 14سالہ ملازم قتل ٭نشے کے عادی نے ماں کو مار ڈالا ٭دیر سے اسکول آنے پر  مار مار کر آٹھویں کلاس کا طالبِ علم مار ڈالا ٭کچرے کے ڈھیر سے 30سالہ خاتون کی تشدّد زدہ لاش برآمد، سر پر ہتھوڑے مار کر قتل کیا گیا ٭اہلیہ کو بُرا بھلا کہنے پر ماں کو قتل کرنے کے بعد لاش کو گاڑی میں رکھ کر جلا دیا ٭بیٹے نے زمین کی لالچ میں ماں اور دو بہنوں کو قتل کردیا ٭عشق کے چکر میں نوجوان قتل،لاش تیزاب سے مسخ کرکے ٹکڑے صحن میں دبا دئیے گئے ٭جائیداد میں حصہ نہ دینے پر چھوٹے بھائی نے فائرنگ کر کے 2 بڑے بھائیوں کو قتل کر دیا ٭کچراکُنڈی سے 6 سالہ بچی کی لاش برآمد ٭ظالم شخص نے اپنے چار چھوٹے بچوں کو کُلہاڑی کے وار کرکے قتل کردیا ٭وقت پر کھانا نہ ملنے پر شوہر نے مشتعل ہوکر اپنی بیوی کو فائرنگ کرکے قتل کردیا ٭کچرے کے ڈھیر سے 5سالہ بچّے کی بوری بند لاش برآمد ٭ مخالفین کوقتل کے مقدمے میں پھنسانے کے لئے اپنی 10سالہ بچّی کو پستول سے فائرنگ کرکےہلاک کردیا٭رشتے سے انکار پر  لڑکے نے فائرنگ کرکے اپنی 23 سالہ کزن کو قتل کر دیا،مقتولہ کی دوہفتے بعد شادی تھی٭دوسری شادی سے روکنے پر سنگ دل باپ نے بیٹے کو قتل کردیا۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس طرح کی خبریں سامنے آنے پر بعض اوقات یقین نہیں آتا کہ انسان اتناگِرسکتا ہےکہ اپنے پیارے بچّوں،باپ، ماں،بہنوں، بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرڈالتا ہے! ایسا لگتا ہے کہ انسان کو قتل کرنامچھر کے ہلاک کردینے سے آسان سمجھا جانے لگا ہے۔شریعت نے ظلماً قتل کرنے کی دنیا میں بھی سزائیں مقرّر کی ہیں، جن کی تفصیل بہارِ شریعت جلد3 صفحہ776تا788 پر دیکھی جاسکتی ہے۔ بِالفرض اگر دنیا میں قاتل اپنے گناہ کو چھپانے میں کامیاب ہو بھی جائے اور پکڑ میں نہ آئے تو کل آخِرت میں کہیں بھاگ نہ سکے گا۔

گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا جس نے بِلا اجازتِ شَرْعی کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا کیونکہ اس نے اللہ پاک کے حق، بندوں کے حق اور حدودِ شریعت سب کو پامال کردیا،اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:( مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-) ترجمۂ کنزالایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔ (پ6،المائدۃ:32)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ایک مؤمن کا قتل دنیا کی تباہی سے بڑھ کر ہے فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم: ایک مؤمن کا قتل کیا جانا   اللہ  پاک کے نزدیک دنیا کے تباہ ہوجانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (نسائی، ص652، حدیث:3992)

زمین و آسمان والے مل کربھی قتل کریں تو؟ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم:اگر آسمان و زمین والے ایک مردِ مؤمن کے خون میں شریک ہو جائیں تو   اللہ پاک سب کو اوندھا کرکے جہنم میں ڈال دے گا۔ (ترمذی،ج 3،ص100، حدیث: 1403) کچھ لوگ فخریہ بتاتے ہیں کہ ہم نے اتنے قَتْل کررکھے ہیں، وہ ان روایات کو پڑھیں اور عبرت پکڑیں:

قتل کا بدلہ جہنم ہے    اللہ  پاک قراٰنِ کریم میں ارشادفرماتا ہے:( وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا ) (ترجمۂ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنّم ہے کہ مدتوں اس میں رہے۔(پ5، النسآء:93))(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اگر مسلمانوں کے قتل کوحلال سمجھ کر اس کا اِرتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنّم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہِ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدتِ دراز تک جہنّم میں رہے گا۔ (صراط الجنان،ج 2،ص277)

گر تُو ناراض ہوا میری ہلاکت ہوگی

ہائے! میں نارِجہنم میں جلوں گا یاربّ!

(وسائلِ بخشش مرمم، ص85)

سب سے پہلا فیصلہفرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم: قیامت کے دن سب سے پہلے خون ِناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔(مسلم، ص711، حدیث: 4381)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان لکھتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اور حقوق العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور گناہوں میں پہلے قتل کا۔(مراٰۃ المناجیح،ج2ص307،306)

مقتول اپنے قاتل کو گریبان سے پکڑے گا:فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم:بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ  پاک قاتل سے دریافت فرمائے گا: تُونے اسے کیوں قتل کیا؟وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو   اللہ  ہی کے لئے ہے۔ (معجم اوسط،ج 1،ص224، حدیث:766)

مولائے کریم قاتلوں کوشریعت کے تقاضو ں کے مطابق سچّی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے،ہمیں اس  گُناہ کے اِرتکاب سے بچائے اور ہمارے معاشرے سے قتل وغارت کے  ناسُور کو دُور فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مدیر(chief  Editor)ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code