صبر کی اہمیت اور اس کے فضائل

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سگِ مدىنہ ابوبِلال محمد الىاس عطّار قادرى رضوی عُفِىَ عَنْہٗ کى جانب سے حاجىانى ۔۔۔عطارىہ کى خدمت مىں مکۂ مکرمہ کى مہکى مہکى فضاؤں کو چومتا ہوا، کعبۂ مشرفہ کے گرد گھومتا ہوا،تلقىنِ صبر سے لبرىز مغموم سلام۔

اَلسَّلَامُ  عَلَیْکُمْ  وَرَحْمَۃُ  اللهِ  وَبَرَكَاتُہٗ

اَلْحَمْدُ  لِلّٰہِ رَبِّ  الْعٰلَمِیْنَ   عَلٰى  کُلِّ  حَال

غمِ رُوز گار مىں تو مِرے اَشک بہ رہے ہىں

تِرا غم اگر رُلاتا تو کچھ اور بات ہوتى

اَحادیثِ مُبارکہ میں یہ مَضامین موجود ہیں :(۱) صَابِرىن بے حساب داخلِ جنَّت ہوں  گے۔(۲) صبر اوّل صدمہ پر ہوتا ہے بعد مىں تو صبر آ ہى جاتا ہے۔(ىعنى صدمہ آتے ہى فوراً صبر کرنے مىں کامىاب ہوجائے جبھى حقىقى صبر ہے ورنہ رَفتہ رَفتہ غم دُور ہو ہى جاتا ہے  اور جب غم ہى دُور ہوگىا تو صبر کىسا !) (۳) جب جب بِىتا ہوا صدمہ ىاد آنے پر اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ (ترجمۂ کنز الایمان:ہم اللہکے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا)(اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) پڑھىں تو اوّل صدمہ پر صبر کرنے کا ثواب ملتا ہے۔

صبرکى تعریف:زبان  گُنگ اور آنکھىں پھٹى کى پھٹى رہ جائىں۔(ىہ صبر کى کىفىت کى مثال ہے، واقعى جب کوئى  بڑى ’’غم خبر‘‘سُنے اور بندہ دانت پىس کر ضبط کرلے تو اِسى طرح کى کىفىت ہوتى ہے، لوگوں کى ہمدردىاں حاصل کرنے، ان سے تسلىاں چاہنے وغىرہ کے لىے اپنى مصىبت کا تذکرہ ’’صبر‘‘ کى تعرىف سے خارج ہے۔)

بہرحال بندہ بے بس و لاچار ہوجاتا ہے، مصىبت آنے پر  شىطٰن اُس کو اکثر صبر کے اَجر سے محروم کرنے مىں کامىاب رہتا ہے۔ مصىبت کى آمد پر جہاں بے صبرى کے باعث اَجرو ثواب کا نقصان ہوتا ہے وہىں ”قفلِ مدىنہ“([1])بھى کُھل جاتا ہے۔ہر اىک کو اپنى پرىشانى کى تفصىل بتاتا پھرتا ہے اور ىوں نہ جانے آخرت کا کتنا بڑا نقصان کربىٹھتا ہے۔ نہ آفت کوئى نئی   چىز نہ ہى کسى کى موت کى خبر تعجب انگىز ۔ىہ تو دُنىا کى زندگى کے روزمَرہ کے معمولات ہىں، دوسرے کى موت کى خبر سُننے والے کى موت کى خبر بھى بالآخر مشتہر ہو ہى جاتى ہے۔ دوسروں کو ’’مَرحوم‘‘ کہنے والا بھى بالآخر ’’مَرحوم‘‘ کا لقب پا ہى لىتا ہے۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اپنا فضل و کرم فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم

ىہ سارى تمہىد اس لىے باندھنى پڑى کہ بابُ المدینہ (کراچى) سے فون پر ىہ اِطلاع موصول ہوئى ہے ’’کہ آپ کے والدِ گرامى محمد ىونس عطارى آج صبح  گیارہ بجے وفات پا گئے ہىں۔“ جى ہاں! جسمانى والد چل بسے مگر تادمِ تحرىر روحانى باپ زندہ ہے۔صبر صبر اور صبر سے کام لىں، دُعائے مغفرت و اىصالِ ثواب کرىں۔ مىں بشرطِ قبول حج (۱۴۲۲؁ھ) اور گزشتہ زندگى کى تمام نىکىاں والدِ مرحوم کو اىصالِ کرچکا ہوں۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ مرحوم کو غرىق ِ رحمت کرے، مغفرت فرمائے اور جنَّتُ الفردوس مىں اپنے پىارے حبىب   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  کا پڑوس نصىب کرے۔ آپ کو اور تمام اہلِ خاندان کو صبر عطا کرے۔

مَدَنى مشورہ : اگر جذبات قابو مىں رہ سکىں تو زبان سے کہنے کے بجائے ”قافلۂ چل مدىنہ“ کى اسلامى بہنوں کو مىرا ىہى ”تعزىت نامہ“پڑھا دىں ىا پڑھ کر کوئى سُنا دے، وطن جا کر بھى ىہى کرىں تو مدىنہ مدىنہ۔

                 محمد الىاس قادری

۱۴ ذُوالحجۃالحرام ۱۴۲۲ ؁ ھ



([1] ) ”قفل مدینہ“دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول میں بولی جانے والی ایک اِصْطِلاح ہے۔ کسی بھی عضوکو گناہ اور فضولیات سے بچانے کو''قفل مدینہ'' لگانا کہتے ہیں۔


Share

Articles

Comments


Security Code