احرام کی حالت میں ٹشو پیپر استعمال کرنا کیسا؟ مع دیگر سوالات

دارالافتاء اہل سنت

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ جولائی 2022

 (01)احرام کی حالت میں ٹشو پیپر استعمال کرنا کیسا ؟

سوال :  کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ اِحرام کی حالت میں ایسا ٹشوپیپر استعمال کرنا کہ جو خوشبو سے تَر ہوتا ہے ،  اُسے انگریزی میں بھی  “ Wet Tissue یعنی گیلا ٹشو ہی کہا جاتا ہے ۔ اگر مُحرِم اُس سے مکمل ہاتھوں کو صاف کرے تو کیا حکم ہو گا ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

حالتِ اِحْرام میں خوشبو سے تَر ٹشو پیپر(Wet Tissue)کے ذریعے ہاتھوں کو صاف کرنے سے مُحرِم پر دَم واجب ہو گا ۔

اِس مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ خوشبودار ٹشو پیپر میں اگر خوشبو کا عَین موجود ہے یعنی وہ پیپر خوشبو سے بھیگا ہوا ہے ،  تو اُس تری کے بدن پر لگنے کی صورت میں جو حکم خوشبو کا ہوتا ہے ،  وُہی اس کا بھی ہوگا ،  یعنی اگر خوشبو قلیل (کم)ہے اورعُضْوِ کامِل(یعنی پورے عُضْو) کو نہیں لگی ،  تو مُحرِم پر صدقہ واجب ہے ،  اور اگر خوشبو کثیر (یعنی زیادہ)ہو یا پورےعُضْو کو لگ جائے ،  تو دم واجب ہے ۔  اب جبکہ سوال کے مطابق مُحرِم نے اُس خوشبو سے بھیگے ٹشو سے مکمل ہاتھ کو صاف کیا تو دَم واجب ہوگا ،  کیونکہ ہاتھ ایک کامِل عضو ہے اور کامل عضو کو خوشبو لگنے کی صورت میں دَم واجب ہوتا ہے ،  اور اگر پورے ہاتھ کو نہ لگی لیکن اُس ٹشو سے لگنے والی  خوشبو اِتنی زیادہ ہو کہ اُس پر  “ کثیر “  یعنی بہت زیادہ خوشبو ہونے کا اِطلاق ہو تو بھی دَم واجب ہو گا ۔

اوپر مسئلہ میں  “ دَم “  کے واجب ہونے کا ذکر ہوا ۔  دَم سے مراد ایک بکرا ہے ،  اِس میں نَر ،  مادہ ،  دُنبہ ،  بھیڑ ،  نیز گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ سب شامل ہیں ،  نیز اِس جانور کا حرم میں ذبح ہونا شرط ہے اور مزید یہ کہ اِس دم میں دیے جانے والے جانور میں سے نہ تو آپ خود کچھ کھا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی غنی کو کھلا سکتے ہیں ،  وہ صرف محتاجوں کا حق ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(02)حجِ بدل کون کرواسکتا ہے ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ میرے والد صاحب کے پاس اتنی رقم تقریباً چار پانچ سال سے موجود ہے کہ جس سے وہ حج کر سکیں اور اُن پر حج فرض تھا ،  مگر ابھی تک انہوں نے حج نہیں کیا اور اب اُن کی عمر تقریباً 70 سال ہے اور شوگر ،  بلڈ پریشر اور ٹانگوں کے درد کی وجہ سے زیادہ پیدل نہیں چل سکتے ،  البتہ تھوڑی دیر چل سکتے ہیں اور خود سے سواری وغیرہ پر بھی بیٹھ سکتے ہیں ،  تو کیا وہ اپنی طرف سے حجِ بدل کروا سکتے ہیں یا ان پر خود حج کرنا ضروری ہے ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جان بوجھ کر بغیر کسی شرعی عُذر کے فرض حج کو ایک سال تك مؤخر کرنا گناہِ صغیرہ اور چند سال تک تاخیر کرنا گناہِ کبیرہ ہے ،  لہٰذا اِس تاخیر پر توبہ کی جائے ۔  جب حج ادا کرنے پر قدرت ہو اور دیگر تمام شرائط موجود ہوں تو فوراً یعنی اُسی سال حج کی ادائیگی فرض ہے ،  نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :  فرض حج ادا کرنے میں جلدی کیا کرو ، کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ بعد میں اُسے کیا دشواری لاحق ہو جائے ۔  

اور جہاں تک سوال میں بیان کی گئی صورت کا تعلق ہے تو آپ کے والد صاحب حجِ بدل نہیں کروا سکتے ،  بلکہ اُن پر فرض ہے کہ اپنا حج خود ادا کریں ،  کیونکہ فقہائے کرام نے حجِ بدل کروانے کی اجازت ایسے شخص کو دی ہے جو عاجز ہو اور(عجز کے ممکن الزوال ہونے کی صورت میں) اُس کا عِجْز (عاجز ہونا)موت تک باقی رہے ،  یعنی وفات تک وہ شخص حج کرنے پر قادر ہی نہ ہو ،  اس کی ایک صورت یہ ہے کہ شدید بڑھاپے یا شدتِ مرض کی وجہ سے حالت ایسی ہو چکی ہو کہ خود حج کرنے پر بالکل قدرت ہی نہ رکھتا ہو ،  جبکہ آپ کے والد صاحب کے لئے حج کرنے میں مَشَقَّتْ ضرور ہے ،  لیکن وہ عاجز نہیں ،  کیونکہ فی زمانہ حج کا سفر قدرے آسان ہے ،  حَرَمین شریفین میں طواف ،  سَعْی اور دیگر مناسکِ حج کی ادائیگی کے لئے ویل چئیرز(Wheel chairs) اور دیگر سہولیات میسر ہیں ،  یونہی مکۂ مکرمہ سے مدینہ منوّرہ آنے جانے کے لئے بھی بہترین سفری سہولیات موجود ہیں ،  لہٰذا اتنی سہولیات اور آسانیاں موجود ہوتے ہوئے آپ کے والد صاحب حج کی ادائیگی سے عاجز نہیں ہیں ،  اُن پر فرض ہے کہ اپنا حج خود ادا کریں ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(03)زکام میں آنکھ سے پانی نکلنے سے وُضو ٹوٹے گا یا نہیں ؟

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ بعض اوقات سخت زکام میں آنکھ سے پانی نکلنا شروع ہوجاتا ہے ، کیا اس سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

زکام کی وجہ سے آنکھ سے جو پانی نکلتا ہے ،  اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا ،  یہی حکم آنکھوں میں تیز ہوا لگنے یا رونے کی وجہ سے نکلنے والے پانی کا ہے ،  یعنی اس سے بھی وضو نہیں ٹوٹے گا ،  کیونکہ آنکھ سے نکلنے والے اس پانی سے وضو ٹوٹتا ہے ، جو آنکھ میں درد یا بیماری کی وجہ سے نکلے اور اس سے وضو ٹوٹنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں خون اور پیپ وغیرہ نجاستوں کی آمیزش کا ظن (گمان) ہوتا ہے ، اس لئے احتیاطاً اس سے وضو ٹوٹنے کا حکم دیا گیا اور زکام ، تیز ہوا لگنے یا رونے کی وجہ سے نکلنے والے پانی کا معاملہ ایسا نہیں ، لہٰذا اس سے وضو بھی نہیں ٹوٹے گا ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(04)نمازوں کے بعد امام اورمقتدیوں کاآپس میں مصافحہ کرنا

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نمازوں کے بعد امام اورمقتدیوں کاآپس میں مصافحہ کرنا کیسا ہے ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مصافحہ کرنا اصل کے اعتبار سے سنّت ہے اور خاص نمازوں کے بعد مصافحہ کرنا جائز و مباح بلکہ ایک اچھا عمل ہے کہ مصافحہ کرنا بغض و کینے کو دور کرتا ہے اور محبت بڑھاتا ہے اور نمازوں کے بعد مصافحہ علماء ،  صلحاء اور عامۃُ المسلمین اچھا سمجھ کر کرتے ہیں اور حدیثِ مبارک میں ہے کہ وہ کام جسے عامۃُ المسلمین اچھا سمجھ کر کریں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا ہے ۔

اور کُتبِ فقہ میں جو نمازوں کے بعد مصافحہ کرنے کو بدعت قرار دیا ہے ،  اس سے مراد بدعتِ سیئہ نہیں ،  بلکہ بدعتِ حَسَنَہ (یعنی وہ نیا کام جو قرآن و سنّت کے خلاف نہیں) یعنی اچھی بدعت ہے جو کہ شرعاً مذموم نہیں ،  بلکہ اگر اس کام کو عامۃُ المسلمین اچھا سمجھ کر کریں تووہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا قرار پاتا ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ،  دارالافتاء اہل سنت ،  فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code